مغربی مقبوضہ بلوچستان اور ہماری بے حسی : تحریر سمیر بلوچ


مغربی مقبوضہ بلوچستان اور ہماری بے حسی : تحریر سمیر بلوچ

منگل 4 دسمبر, 2018

ہمگام کالم : بلوچ قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی منتشر قومی قوت کو یکجا کرنے کے لئے برسرِ پیکار ہیں بلوچ محدود قومی قوت کے ساتھ دو انتہائی شاطر اور مکار دشمنوں پاکستان و ایران کے ساتھ تاریخ ساز مزاحمت کا سامنا کر رہی ہیں مذکورہ ریاستیں اپنی سرتوڑ کوششوں سے بلوچ تحریک کے سلگتی آتش فشاں کو نہیں روک سکے ہیں اور تزویراتی حوالے سے انتہائی اہم خطہ بلوچ کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے بھی نہیں ہیں کیونکہ ایشیائی ریاستوں میں اپنے لوہے کو منوانے کیلئے بلوچ خطہ قبضہ گیر ایرانی ملا رجیم اور پنجابی کیلئے ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے. اِسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے قابض ایران و پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچ سمیت دوسرے محکوم اقوام کی استحصال کرتے آ رہے ہیں بلوچ سرزمین کیلئے ان کے باسیوں کا گھیراؤ کچھ اس طرح سے تنگ کیا جا چکا ہے کہ بلوچ کسمہ پرسی کی تشویشناک حالت تک پہنچ چکے ہیں. معمول کے مطابق بلوچ نوجوان قابضین کی ننگی جارحیت کے شکار ہو رہے ہیں۔ ایرانی ملا رجیم جس کے معاشی بوجھ جو مغربی مقبوضہ بلوچستان کے قومی وسائل کئی سالوں سے برداشت کر رہی ہیں مگر ہزار افسوس مقامی بلوچ دو وقت کی سوکھی روٹی کے حصول کیلئے اپنی قیمتی جانیں تیل کے کاروبار میں ضائع کر رہے ہیں مشرق سے لیکر مغرب اور شمال سے جنوب تک قدرت نے بلوچ سرزمین کو ایسے معدنی وسائل اور زمینی راستوں سے نوازا ہے کہ بلوچ خطے کو ہم ایشیائی ممالک کا دل بھی کہیں تو یقیناً ہم غلط نہیں ہوسکتے مگر بلوچ خطہ ایرانی اور پاکستانی شیطانی پنجوں میں کچھ اس طرح سے جھکڑا گیا ہے کہ بلوچ اپنے وسائل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے. اور بلوچ سنگین انسانی نسل کشی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جس کی حالیہ مثال مغربی مقبوضہ بلوچستان میں ایرانی ملا رجیم کی طرف سے بلوچ نوجوانوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں نوجوانوں کو راہ چلتی گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کیا جا چکا ہے ہزاروں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں سولی پر چڑھایا جا چکا ہے گزشتہ ماہ ایران کے زیر قبضہ بلوچستان میں چالیس بلوچ ماں اور بیٹیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور چند دنوں کے اندر دس سے زیادہ بلوچ نوجوانوں کو بغیر کسی جرم کے گجر کی جانب سے فائرنگ کرکے شہید کیا جا چکا ہے دشمن کی طرف سے اس سے بھی زیادہ درندگی کے توقع رکھی جا سکتی ہے کیونکہ بحیثیت ایک زندہ قوم بلوچ اس کے خلاف جنگ کی شروعات کر چکے ہیں اور ہر محاذ پر دشمن ریاست ایران اور پاکستان کے ساتھ جنگ کیلئے کمر بستہ ہیں مگر افسوس ان آزادی پسند پارٹیوں پر جو کچھ وقتی مراعات کے لالچ میں اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور ایرانی ننگی جارحیت پر خاموشی کا روزہ رکھ کر بالکل بے حس ہو چکے ہیں. ایرانی نسل کشی پر ان کے قلم کے سیاہی خشک پڑ چکے ہیں اور زبانیں گنگ ہو چکی ہیں. جنگ دور کی بات قابض کے ننگی جارحیت پر ایک مذمتی بیان بھی دینا گوارا نہیں کرتے جو ایرانی ملا رجیم کی خاموش حمایت کا ایک ٹھوس ثبوت ہے مگر دوسری جانب بلوچ تحریک آزادی کے روح رواں اور فری بلوچستان موومنٹ کے قائد سنگت حیر بیارمری جو ایرانی قابض کے خلاف دو ٹوک اور واضع قومی موقف اختیار کیئے ہوئے ہیں جن کی کوششوں کی مرہونِ منت سےمغربی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ نوجوان ایرانی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں جس کی کریڈٹ سنگت حیر بیار سمیت انکے ہم فکر ساتھیوں کو جاتا ہے جن کی ہمہ گیر کوششوں سے نوجوان نسل اپنے قومی تشخص کو بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگر بد قسمتی سے آزادی کے چند نام نہاد دعویداروں کو سنگت کے یہ اعمال بھی گوارا نہیں گزرے اسی لیے انھوں نے اپنے انا کی تسکین اور محدود گروہی مفاد و نابالغ سیاست سے کئی بار مختلف حیلوں و بہانوں سے سنگت کے خلاف زہر افشانی و ان کی کردار کشی میں لگے رہے ہیں ان غیر سیاسی لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ بلوچ رہبر حیر بیار مری بلوچ قومی مفاد کی خاطر اس چٹان کی مانند کھڑے ہیں جنھیں یہ موسمی ہوائیں کسی بھی صورت نہیں ہلا سکتی۔
مشرقی مقبوضہ بلوچستان میں سال دو ہزار کے دورانیے میں پانچویں بار بلوچ قومی مزاحمت نے سر اٹھانا شروع کیا تھا مگر بدقسمتی سے بلوچ لیڈر شپ صرف مشرق تک محدود رہے مغربی مقبوضہ بلوچستان کے استحصال زدہ بلوچ بھائیوں کی کسی بھی لیڈر کو نہ سوجھی ماسوائے سنگت حیر بیار مری کے مغربی مقبوضہ بلوچستان ہمارے جسم کا اٹوٹ انگ ہے جسے کسی بھی صورت گجر سامراج کو نہیں بخشا جائیگا. مگر بدقسمتی کہے یا ہماری کمزور و نیم توانا لیڈروں کی سیاسی اپروچ کی کمی کے ہم ہر دور میں مقبوضہ مغربی بلوچستان کو اپنے ساتھ ملانے میں مکمل ناکام رہے ہیں. کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ مغربی مقبوضہ بلوچستان کے عوام اپنے حالات پر خوش ہیں جو سراسر غلط ہے کیونکہ مغربی بلوچستان میں ابھرنے والی عوامی مزاحمت اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ دشمن گجر کے خلاف بلوچ عوام کے اندر نفرت کی جڑیں کافی پرانی ہے جس کی کھل کر اظہار اب سامنے آ رہا ہے.
قابض ایران اپنی دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے عالمی برادری کو بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے یمن جہاں دو ہزار بارہ سے حوثی باغی اقتدار کی خاطر مقامی مسلح افواج کے خلاف جنگ چھیڑ چکے ہیں جن کو مکمل طور پر ایرانی ملا رجیم کی حمایت حاصل ہے اور ایرانی ساختہ ہتھیاروں سے امریکہ کے مضبوط اتحادی سعودی عرب پر تواتر سے حملے کر رہا ہے امریکہ سمیت دیگر عالمی و عرب ممالک ایرانی مذموم عزائم کے خلاف کھل کر اپنی رایے کا اظہار کر چکے ہیں اور آج ایران کو مختلف قسم کی معاشی وسیاسی پابندیوں کاسامنا ہے مغرب کے ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ایران میں سرمایہ کاری کرنے سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں ایران سیاسی و معاشی حوالے سے عالمی دنیا میں اکیلا ہوتا جارہا ہے مگر ہمارے عقل کے پیدل کچھ آزادی پسند ایران سے چپکے ہوئے ہیں ان کو عالمی سیاست کی کچھ بھی سوجھ بوجھ نہیں ہے بس وقتی اور معمولی مراعات کی خاطر ایران کو گلے لگائے ہوئے ہیں جس کے مستقبل قریب میں سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں .
قابض ایران چابہار پورٹ کی توسط سے بلوچ سرزمین کو اپنے سامراجی عزائم کیلئے بھرپور استعمال کر رہا ہے اسی طرح پاکستان چینی مدد و کمک سے گوادر پورٹ کے ذریعے بلوچ سرزمین کو ان کے مرضی و منشاء کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور ان دو سامراجی لوٹ کھسوٹ کو “گیم چینجر” کا نام دیا گیا ہے جو کسی بھی صورت بلوچ قوم کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ اسی لیے ہندوستان سمیت چین کو اپنے اس غیر قانونی معاہدوں سے بالآخر سبکدوش ہونا پڑے گا، کیونکہ مذکورہ قابض ریاستیں ایک متنازعہ خطہ میں اس کے حقیقی وارثوں کے interest کے خلاف یہ معاہدات کر چکے ہیں اور بلوچ آزادی پسند سنگتوں کو چاہیے کہ وہ ایرانی ملا رجیم کے خلاف اپنے موقف میں مزید سختی لائیں کیونکہ جس طرح پاکستان بلوچ سرزمین میں ایک قابض کی حیثیت سے گزر بسر کر رہا ہے اسی طرح ایران بھی بلوچ سرزمین میں بلوچ قومی مفادات کے خلاف گزر بسر کر رہا ہے اسی میں بحیثیت قوم بلوچ کی وجود باقی رہ سکتی ہے.
سنگت حیر بیار مری اور ان کے فکری ہم سفروں کو چاہیے کہ وہ مغربی مقبوضہ بلوچستان و بیرونی دنیا میں بھی عوامی سطح پر کام کرنے کے عمل کو مزید مضبوط و مستحکم کریں کیونکہ گزشتہ ادوار میں ہم مغربی بلوچستان کے عوام کو اپنے ساتھ نہ ملا کر ایک تاریخی غلطی کر چکے ہیں اور اب کی بار اگر ہم اُسی غلطی کا پھر سے ارتکاب ہوئے تو تاریخ میں ہمیں شرمندگی اور قومی نقصان کے سوا کچھ بھی نصیب نہیں ہو گا.

 

 

مغربی مقبوضہ بلوچستان اور ہماری بے حسی : تحریر سمیر بلوچ

twitter
Youtube
Facebook