ایران ,امریکہ کشمکش اور بلوچ کا مستقبل تحریر: قاضی بلوچ


 

ایک دفعہ اگر بلوچ بلوچستان کے ایک حصے کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ دوسرے حصے کی آزادی میں نہایت اہم کردار ادا کرسکیں گے جس کی مدد سے دوسرا حصہ بھی جلد آزاد ہوسکے گا لیکن اس کے لئے بلوچوں کو اس آخری منزل کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ قومی تحریک کا مقصد ایک عظیم تر متحدہ بلوچستان حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیئے بلوچ آزادی پسندوں کو کندھے سے کندھا ملا کر بلوچ رہبر واجہ حیربیار مری کے واضح، شفاف اور دو ٹوک موقف کی حمایت کرنی چاہئے۔ بلوچ قوم کو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اپنی قومی تحریک آزادی کی حمایت حاصل کرنے کےلئے دنیا کو قائل کرنا بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ متحدہ بلوچستان حاصل کرنے کےلئے اتحاد اس مرحلے میں وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن ایران یا پاکستان کے لئے ایک پروکسی کا کردار ادا کرنا نا بلوچوں کو اپنی قومی آزادی دلائے گا اور نہ ہی کسی اور طرح سے قوم کے لئے مدد گار ثابت ہوگا۔

پیر 20 مئی, 2019

ہمگام کالم : پچھلے کچھ دہائیوں سےمشرق وسطہ بہت سے علاقائی اور عالمی اقوام کے مابین رسہ کشی کا مرکز رہا ہیں۔ خطے کی بڑی طاقتیں سعودی عرب، اسرائیل اور ایران (جو امریکی معاشی پابندیوں کے بعد اتنے طاقتور نہیں رہے ) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل اور دیگر عرب ریاستوں کے مابین 1948 سے لیکر اب تک کافی جنگیں بھی ہوئی ہیں مگر اب مشرق وسطی کی سیاست تبدیل ہوگئی ہے۔
خطے میں اسرائیل ایران کو اپنے لئے ایک دشمن تصور کرتا ہے جس کو کافی عرب ریاستوں جیسا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے پزیرائی بھی حاصل ہوئی ہے۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ ان ریاستوں نے اسرائیل کے وجود اور شناخت کو قبول کرلیا ہے۔ سعودی عرب جو خطے میں سب سے بڑی سنی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور دیگر سنی ریاستوں کو اپنے اتحادی بننے کی تلقین کر رہا ہے اور سعودی عرب کی ان کوششوں کے نتیجے میں 40 ملکی متحدہ فوج کا قیام عمل میں آ چکا ہے دوسری جانب ایران جو اسرائیل اور سعودی عرب کے مخالف کے طور پر خطے میں موجود ہے نے بھی بڑی مقدار میں شیعہ ریاستوں کو متحد کرنے پر پیسہ بہایا ہے۔ یمن میں سعودی عرب اور یمنی حکومت کی سربراہی میں بر سرپیکار عرب اتحاد کے خلاف لڑنے والے حوثی باغیوں کو بھی ایران کی حمایت حاصل ہے اس کے علاوہ لبنان اور گردو نواع میں لڑنے والے حزب اللہ، فلسطین میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے حماس اور ایرانی ‘دہشتگرد سپاہ پاسداران انقلاب’ جو کہ پورے خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات کے خلاف تعینات ہیں کو بھی ایران ہی کی طرف سے مدد مل رہی ہے جن کے مابین مشرق وسطہ میں ہمیشہ محاذ گرم رہتا ہے۔
عالمی کھلاڑیوں میں چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے کے علاوہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک روس کو ایران کے اتحادی ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف سعودی عرب کے پلڑے میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت رکھنے والے ملک امریکہ کے علاوہ یورپی طاقتیں اور سنی عرب ریاستیں بھی شامل ہیں۔ دونوں اطراف سے باقاعدہ جنگ تو نہیں ہوئی مگر ہمیشہ اپنے پراکسیز کے ذریعے ایک دوسرے کی اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہوتی رہی ہے اور ایک دوسرے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوششیں ہمیشہ سے ہی جاری رہی ہیں۔ امریکہ اور ایران کے بیچ پکنے والا لاوا اب کی بار شاید ایک باقاعدہ جنگ کی صورت حال کے طور پر سامنے آئے۔نفرت اور جنگ کی چنگاریوں کو ہوا اس وقت ملی جب امریکی سربراہ مملکت ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ دستبرداری کا اعلان کیا جو اوبامہ انتظامیہ کے دوران ایران امریکہ اور دیگر پانچ عالمی طاقتوں کے مابین طے پایا تھا۔ معاہدے سے دستبرداری کے بعد امریکہ نے ایک بار پھر ایران پر معاشی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا جن کو ایران نے غیر قانونی کہہ کر مسترد کردیا۔ اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں لگادیں کہ کوئی بھی ملک ایران سے تیل اور گیس نہیں خرید سکتا سوائے عارضی استثنیٰ کے حامل ممالک کے مگر لال بتی اس وقت جل گئی جب امریکہ نے یہ اعلان بھی کردیا کہ عارضی استثنیٰ کی مدت بھی ختم ہوگئی ہے جس کی رو سے اب کے بعد کوئی بھی ملک ایران سے کسی قسم کا تجارتی معاہدہ نہیں رکھ سکتا جس کے بعد ایران نے بھی جوہری معاہدے کی کئی شکوں سے دستبرداری کا اعلان کردیا تاکہ امریکہ کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ اگر ایران کے خلاف معاشی پابندیاں نہ اٹھائی گئیں تو ایران اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہے، جس کے ردعمل میں امریکی انتظامیہ نے ایران کی لوہے، کاپر اور الومینیم کی صنعتوں پر بھی مئی دوہزار انیس میں پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔متذکرہ بالا کے علاوہ ایران نے امریکی پابندیوں کے ردعمل میں دھمکی دی ہے کہ اگر ایران پر امریکی معاشی پابندیاں نہ اٹھائی گئیں تو ایران آبنائے ھرمز بند کردے گا، آبنائے ھرمز خلیج فارس میں واقع ہے جو دنیا کی چالیس فیصد تیل کی گزرگاہ ہے اور اس کو امریکہ کی دکتی نبض یا شہہ رگ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ آبنائے ھرمز بند کرنے کی ایرانی دھمکی کے پیش نظر امریکہ نے اپنے جنگی بحری بیڑے خلیج فارس میں تعینات کردئیے اور ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے آبنائے ھرمز کو بند کرنے کی کوئی بھی شر انگیزی کی تو امریکہ شدید ردعمل دکھائے گا اور اس رد عمل میں امریکہ ایران پر حملہ کرکے اس کو تباہ کردے گا۔ دنیا کے حالات حاضرہ کے ماہرین اس بات پر بڑی پر زور بحث کر رہے ہیں کہ آیا ایران ایسا کرے گا یا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ تیس ناٹیکل میل پر مشتمل اس بحری گزرگاہ کو بند کرنا ایران کے بس کی بات نہیں، ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ ایران یا تو جنگی بحری بیڑے تعینات کرے یا پھر سمندر میں دھماکہ خیز مواد لگا کر اس آبی گزرگاہ کو بند کردے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں امریکی و یورپی بحری بیڑے یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایران کی جانب سے تعینات بحری بیڑے یا بارودی مواد کو لمحوں میں ہی تباہ کردیں، اگر جواب میں ایران کوئی رد عمل دکھا دے تو ایران اور مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے مابین ایک تباہ کن جنگ کی شروعات ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سارے ماہرین اس امکان کو بھی ظاہر کررہے ہیں کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چڑ جاتی ہے اور یقینی طور پر امریکہ اپنی جنگی صلاحیت و طاقت کے بل بوتے پر جنگ جیت جائے گا تو یہ صورتحال ایران کی جغرافیائی تقسیم کی جانب رخ اختیار کریگا جہاں ماہرین کے بقول وہ تقسیم وہاں پر مختلف بولی جانے والی زبان اور آبادی کی بنیاد پر قومیت کے مابین ہوگا جو ایران کے زیر تسلط آباد اقوام بلوچ، کرد اور احوازی عرب ہونگے جو اس صورتحال کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں استعمال کرنے کے مجاز ہونگے۔ ماہرین کا توقعاتی خیال ہے کہ اس تمام صورتحال اور جنگی مرحلے کے اختتام پرمغربی بلوچستان جو ایران کی جانب سے ایک مقبوضہ وطن ہے ایک آزاد ریاست کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوسکتا ہے، ایران کی جانب سے ان اقلیتوں پر ایک ظالمانہ گرفت رکھا گیا ہیں، اور بلوچ بھی اس ظلم و جبر سے کسی صورت آزاد نہیں، کیونکہ بلوچوں کا تعلق سنی مسلک سے ہیں ، اور ایرانی شیعہ ملا رجیم ان کو ہمیشہ قومیت و مزہب کے تعصب کی بنیاد پر دباتی رہی ہے۔ بلوچوں کو اپنی مادری بلوچی زبان ، پڑھنے اور لکھنے کی اجازت تک نہیں ہے یہاں تک کہ اپنے بچوں کے بلوچی نام رکھنے پر ان کے لئے سزائیں مختص ہیں ۔ ہزاروں سالوں سے اپنے آبائی وطن میں رہنے کے باوجود بلوچی نام رکھنے کی صورت میں ان کا تمسخر اڑا کر ان کے بچوں کو انھی نام کے ساتھ سکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا ،اور شہریت کے کاغزات کیلئے بھی ان کا اندراج نہیں کرایا جاتا، مزید برآں بلوچوں کو اپنے مذہبی تہواروں کے علاوہ اپنے ثقافتی رسومات کی ادائیگی تک کی اجازت نہیں ہیں۔ ان کی سیاست میں بھی کئی کوئی نمایاں حصہ داری نہیں ہے۔ مغربی بلوچستان جو کہ ایران کے قبضے میں ہے کی سرزمین سے بہت سارے قدرتی وسائل نکلنے کے علاوہ بہت سی بندرگاہوں کی بھی سرزمین ہے لیکن اس سب کے باوجود ان کو وہ معاشی ،سیاسی حقوق حاصل نہیں ہیں جن کے وہ حق دار ہیں مزید یہ کہ ان کے ساتھ ایرانی شیعہ ملا رجیم غلاموں کی طرح کا رویہ رکھتی ہے۔
مشرقی و مغربی بلوچستان میں رہنے والے تمام بلوچ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ایران ایک قابض بدمعاش ریاست ہے جس نے غیر قانونی طریقے سے بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ان پر غیر قانونی طریقے سے حکومت کر رہا ہے۔ بلوچستان جس پر اس وقت ایران قابض ہے تاریخی طور پر سلطنت فارس کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا ہے، لیکن بدقسمتی برطانوی سامراج نے 1928 میں گولڈ اسمتھ لائن کیھنچ کر اپنے خاص تزویراتی مفادات کی خاطر مغربی بلوچستان ایران کے حوالے کیا ۔لیکن بعض لوگ اپنے اصل تاریخ کو جان کر بھی انجان بنے بیھٹے ہیں۔ بلوچ پاکستان کے ساتھ 1948 سے لڑ رہا ہے یہ لڑائی اپنی تمام تر اونچ نیچ کے باوجود ابھی تک جاری و ساری ہے، بلوچوں کی مشرقی بلوچستان میں جاری یہ تحریک پاکستان کے لئے ایک سنجیدہ درد سر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بلوچستان کی بہت سے آزادی پسند جماعتوں کے ارکان پاکستان کے ساتھ تو لڑ رہے ہیں مگر وہ مغربی بلوچستان کا یہ جانتے ہوئے بھی ذکر نہیں کرتے کہ وہ ایران نہیں بلکہ بلوچستان کی وحدت سے زبردستی کاٹا گیا ایک فطری و حقیقی حصہ رہا ہے۔متحدہ آزاد بلوچستان کی آزادی کی مانگ بلوچ قیادت میں صرف سنگت حیربیار مری کا موقف ہے۔ وہی وہ مرد مجاہد ہیں جو متحدہ بلوچستان کے موقف کی حمایت کرتے آرہے ہیں اور ایران و پاکستان دونوں کو بلوچستان و بلوچوں کا قومی دشمن سمجھتے ہیں، بہت سے قومی اور بین الاقوامی مرحلوں میں انہوں نے تمام بلوچ قیادت و جماعتوں کو اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی ہے۔
حیر بیار مری کی سربراہی میں نئی وجود میں آنے والی سیاسی جماعت ‘فری بلوچستان موومنٹ ‘کا ایران و پاکستان کے خلاف ایک واضح اور دو ٹوک موقف ہے، فری بلوچستان موومنٹ کو مشرقی اور مغربی بلوچستان میں رہنے والے تمام بلوچوں کے علاوہ یورپ، خلیجی ممالک، امریکہ اور کینیڈا سمیت دوسرے ممالک میں مقیم بلوچوں کی حمایت حاصل ہے۔ فری بلوچستان موومنٹ اپنی وجود کے بعد سے لیکر اب تک ایران و پاکستان کی جانب سے بلوچستان پر غیر قانونی قبضے کے خلاف بلوچستان اور بیرون ملک میں احتجاج کرتی آ رہی ہے۔ دنیا کی توجہ اور مدد حاصل کرنے کی خاطر فری بلوچستان موومنٹ نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی بار آگاہی مہم چلائی ہیں جن میں حالیہ دنوں یورپ بالخصوص جرمنی میں جاری دستخطی آگاہی مہم شامل ہے۔
فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے جاری دستخطی آگاہی مہم بعنوان “بلوچستان نہ پاکستان اور نہ ہی ایران” کو پوری دنیا میں بلوچوں اور غیر بلوچوں کی جانب سے پزیرائی حاصل ہورہی ہے۔ ایک دفعہ کچھ جرمن شہریوں نے مہم کا انعقاد کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اس آگاہی مہم کی بدولت ہم بلوچستان کے حالات کے بارے میں بہتر آگاہ ہوئے ہیں۔ آخر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آزادی پسند بلوچ عوام بالخصوص بلوچ رہبر حیربیار مری اور دیگر بلوچوں کو مہذب اقوام کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، اور دنیا کے دیگر اقوام کو اس امر سے آگاہ کیا جانا چاہئے کہ ایک آزاد بلوچ ریاست خطے میں پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہوگا۔
ایک دفعہ اگر بلوچ بلوچستان کے ایک حصے کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ دوسرے حصے کی آزادی میں نہایت اہم کردار ادا کرسکیں گے جس کی مدد سے دوسرا حصہ بھی جلد آزاد ہوسکے گا لیکن اس کے لئے بلوچوں کو اس آخری منزل کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ قومی تحریک کا مقصد ایک عظیم تر متحدہ بلوچستان حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیئے بلوچ آزادی پسندوں کو کندھے سے کندھا ملا کر بلوچ رہبر واجہ حیربیار مری کے واضح، شفاف اور دو ٹوک موقف کی حمایت کرنی چاہئے۔ بلوچ قوم کو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اپنی قومی تحریک آزادی کی حمایت حاصل کرنے کےلئے دنیا کو قائل کرنا بہت زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ متحدہ بلوچستان حاصل کرنے کےلئے اتحاد اس مرحلے میں وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن ایران یا پاکستان کے لئے ایک پروکسی کا کردار ادا کرنا نا بلوچوں کو اپنی قومی آزادی دلائے گا اور نہ ہی کسی اور طرح سے قوم کے لئے مدد گار ثابت ہوگا۔

 

h umgaam.net/ایران-امریکہ-کشمکش-اور-بلوچ-کا-مستقبل-ت/?fbclid=IwAR3hOc2uHWD2o0OnDN3Y7Kacoa2grWZsGovna_3JjFmM7yCtIKQfWER2XSM

twitter
Youtube
Facebook