خیر بخش مری ایک عہد اور میرا نقطہ نظر


خیر بخش مری ایک عہد اور میرا نقطہ نظر۔۔۔۔۔۔۔تحریر: رژن بلوچ

ہزاروں سال ایک سرزمین پر ایک ہی کلچر کو ورد کرنا تو وہ سرزمین اور وہ کلچر آپ کی شناخت بن جاتے ہیں۔ اچانک کوئی آکر آپ کی شناخت اور زمین پر قبضہ کرلیں تو سرزمین کا حقیقی وارث ازخود جنگ کا آغا کرکے اپنی شناخت کی خاطر لڑتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسا بلوچوں نے کیا۔ جب پاکستان بلوچ سرحدوں میں داخل ہوئی اور ڈیرہ جما کے بیٹھ گئی تو بلوچوں نے اپنی سرزمین کی خاطر اپنی جانوں کو برسرِ طاق رکھ کے جنگ کا آغاز کیا، جو تاحال جاری ہے۔

بقولِ اُستاد میر محمد علی ٹالپور’’ ہمیں بلوچستان سے اس لئے محبت نہیں کہ وہ معدنیات سے مالا مال ہے بلکہ اس لئے کیوں کہ وہ ہماری مادر وطن ہے۔‘‘ آج پاکستان بلوچستان کو تپتی ہوئی آگ میں سلگا رہا ہے، جیسا پاکستانی جنرلوں نے بنگال کو سلگا یا اور بقولِ پاکستانی جنرل ٹکا خان کے’’ہمیں بنگالی لوگ نہیں، بلکہ بنگالیوں کی زمین چاہئے‘‘ بالکل ویسے ہی پاکستانی فوج کو بلوچستان کے لوگ نہیں بس بلوچستان چاہیے۔
بلوچ کی جنگ نے اب تک 4 پڑاؤ پار کیے اور اب پانچویں انسرجنسی ہے جو 2000 سے لے کر اب تک جاری ہے۔

بلوچ جنگ نے بہت سے ہیروز کو جنما، وہ ہیروز جو آج شاید ہماری کتابوں میں تو نہیں البتہ ہماری یادوں میں ضرور ملیں گے۔ اس جنگ نے اس خطے کی انقلاب کی علامت کو بھی جنما جو ایک دور اندیش لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچوں کے سب سے بڑے مزاحمتی قبیلے’’ مری قبائل ‘‘ کے بھی سردار تھے۔ 


ہزاروں سال ایک سرزمین پر ایک ہی کلچر کو ورد کرنا تو وہ سرزمین اور وہ کلچر آپ کی شناخت بن جاتے ہیں۔ اچانک کوئی آکر آپ کی شناخت اور زمین پر قبضہ کرلیں تو سرزمین کا حقیقی وارث ازخود جنگ کا آغا کرکے اپنی شناخت کی خاطر لڑتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسا بلوچوں نے کیا۔ جب پاکستان بلوچ سرحدوں میں داخل ہوئی اور ڈیرہ جما کے بیٹھ گئی تو بلوچوں نے اپنی سرزمین کی خاطر اپنی جانوں کو برسرِ طاق رکھ کے جنگ کا آغاز کیا، جو تاحال جاری ہے۔

بقولِ اُستاد میر محمد علی ٹالپور’’ ہمیں بلوچستان سے اس لئے محبت نہیں کہ وہ معدنیات سے مالا مال ہے بلکہ اس لئے کیوں کہ وہ ہماری مادر وطن ہے۔‘‘ آج پاکستان بلوچستان کو تپتی ہوئی آگ میں سلگا رہا ہے، جیسا پاکستانی جنرلوں نے بنگال کو سلگا یا اور بقولِ پاکستانی جنرل ٹکا خان کے’’ہمیں بنگالی لوگ نہیں، بلکہ بنگالیوں کی زمین چاہئے‘‘ بالکل ویسے ہی پاکستانی فوج کو بلوچستان کے لوگ نہیں بس بلوچستان چاہیے۔
بلوچ کی جنگ نے اب تک 4 پڑاؤ پار کیے اور اب پانچویں انسرجنسی ہے جو 2000 سے لے کر اب تک جاری ہے۔

بلوچ جنگ نے بہت سے ہیروز کو جنما، وہ ہیروز جو آج شاید ہماری کتابوں میں تو نہیں البتہ ہماری یادوں میں ضرور ملیں گے۔ اس جنگ نے اس خطے کی انقلاب کی علامت کو بھی جنما جو ایک دور اندیش لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچوں کے سب سے بڑے مزاحمتی قبیلے’’ مری قبائل ‘‘ کے بھی سردار تھے۔

مزاحمتی تاریخ میں ایک عہد سی شخصیت رکھنے والے نواب خیر بخش مری کو ہم سے جدا ہوئے 4سال گزر گئے۔ نواب مہر اللہ کے اولین سپوت اور مری قبیلے کے سردار ہونے کا شرف نواب مری کو حاصل تھا۔ مری قبیلے کو بلوچوں میں سب سے بڑا مزاحمتی قبیلہ جانا جاتا ہے ۔ اپنی جوان عمری میں تمام تر آسا ئشیں ہونے کے باوجود اپنی پوری زندگی کو تحریک کے لیے صرف کرنا، صوبائی خودمختاری جیسے فریب نعرے کو مسترد کرکے قومی آزادی کی سمت کو واضح کرنا ، تحریک کے تسلسل کو برقرار رکھنے جیسے عمل سے نواب صاحب نے اپنا قائدانہ فر ائض ادا کیے۔

1958۔1960 کے وقت جب جنرل ایوب کے‘‘ ون یونٹ‘‘ اور جنرل ٹکا خان کی سفاکیت کے خلاف عوامی غصہ عروج پر تھی تب بلوچستان نواب خیر بخش کو منظر عام پر لائی، بقولِ مختار حسین، اخبار جسارت کے سیاسی تجزیہ نگار،‘‘ انہوں نے مری کی خودداری کو للکارا تھا‘‘، بظاہر نواب مری کی ابتدائی جدوجہد ون یونٹ کے خلاف تھی لیکن بلوچ تاریخ میں نواب صاحب وہ لیڈر تھے جو اپنی ابتدائی ایام سے آخری ایام تک قومی آزادی کے بارے میں واضح دوٹوک موقف رکھتے تھے ۔ سلیگ ہیریسن اپنی کتاب‘‘ افغانستان شیڈوز’’میں لکھتے ہیں کہ تب نواب مری ایک عام نوجوان سے ایک پختہ نظریاتی شخص میں تبدیل ہوگئے تھے۔
نواب مری 1956، 1962 اور 1970 ء کو پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن بھی بن جاتے ہے اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے چیئر مین بھی رہے چکے ہیں۔ جب/1962 1963 میں شیر محمد مری نے گوریلہ موومنٹ کا آغاز کیا تو نواب مری براہ راست نہیں لیکن بالواسطہ پراری موومنٹ کے دوستوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نواب مری دورِ اقتدار میں پراری موومنٹ کی گوریلہ انفرااسٹرکچر بنانے میں مدد کرتے تھے۔

کہتے ہیں 73کی جنگ کی تیاری نواب صاحب 70سے کیے ہوئے تھے جب بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کی تو باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا ، نیپ کی لیڈر شپ گرفتار ہوئی جس میں نواب صاحب بھی شامل تھے ۔جب نواب مری جیل سے رہا ہوئے تو 78۔80 میں 12,13 ہزار پناہ گزین کے ہمراہ افغانستان میں پناہ گزیر ہوئے۔ پراری لیڈر شیر محمد مری بھی بعد میں نواب مری کے پاس افغانستان چلے گئے۔ دو کبیر لیڈر ایک جگہ قومی تحریک کو نیا وژن دینے کے بجائے کسی نامعلوم وجوہات پر اختلافات کے شکار ہوئے جس پہ شیر محمد مری ناراض ہوکر دہلی کے راستے کراچی آگئے۔آپ نواب مری جیسے دوراندیش لیڈر سے پوری قوم معامعلہ فہمی کے توقعات رکھتے تھے لیکن نہ نواب صاحب نے شیر محمد کو منایا اور نہ ہی تا روزِ امروز یہ بات نکلی کہ اختلاف کیا تھے، کچھ ایسا ہی واقعہ میر ہزار خان بجارانی کے ساتھ بھی ہوا، میر ہزار خان بجارانی اور نواب صاحب کے درمیان اختلافِ رائے پیدا ہوئے تو میر بجارانی بھی پورے بجارانی ٹک کے ساتھ افغانستان سے لوٹ آئے ۔
نواب مری اور بجارانی مسئلے کو حل نہ کرنے کی وجہ سے پورا بجارانی ٹک تحریک سے درکنار ہوجاتا ہے اور آج تک اُن کے درمیان اختلافات کے اصل حقائق کا کسی کو کچھ پتا نہیں اور نہ ہی نواب صاحب نے لب کشائی کی۔ میر ہزار خان اور شیر محمد مری جیسے دو صف اول کے رہنما خاموش ہوگئے لیکن آج تک بلوچ عوام سمیت سیاسی کارکن کو علم تک نہیں اختلافات کے نوعیت کیا تھے ۔ میرے ناقص رائے یہ ہے کہ شاید تحریک فرد واحد کی زات پر منحصر تھا اور اداروں کی عدم موجودگی کے سبب یہ تمام تر مشکلات پیش آئیں۔

استاد واحد کمبر اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ شہید فدا احمد پارٹی کی ضرورت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہوئے تحریک میں پارٹی کی خلاء کو پرکرنے کے لئے نواب خیربخش مری سے ملنے کے لئے میر حمل پرکانی اورمیر عبدالنبی بنگلزئی کے ہمراہ کابل چلے گئے۔ بنیادی معاملہ تنظیم کی ضرورت اور اس کے قیام کے لئے کوششیں تھیں، استاد قمبر لکھتے ہیں کہ فدا نے واپس آکر بتایا کہ‘‘ جب میں نے نواب صاحب کے سامنے اپنے رائے کا اظہارکیا تو نواب صاحب نے مجھ سے تنظیمی خاکے کامطالبہ کیا تو میں نے انہیں سیاسی تنظیم کا خاکہ اور اس کے آئینی ڈھانچہ فراہم کیا لیکن نواب صاحب بنیادی طورپر تنظیم کے ضرورت پر قائل نہیں ہوسکے۔

آخر وہ کیا وجوہات تھیں جو نواب مری قومی تحریک کو اداروں کے بجائے قبیلوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے؟ کیوں پارٹی کی ضرورت در پیش نہیں آئی؟ نواب صاحب جیسے دانشور نما لیڈر بخوبی جانتے تھے تحریک بغیر تنظیم کے نامکمل ہوتی ہے لیکن نواب صاحب کی تنظیموں کو اہمیت نہ دینا کا معاوضہ ہم آج تک بھر رہے ہیں۔

تحریک میں ادارے تشکیل نہیں دینا از خود ایک پیچیدہ مسئلہ تھا لیکن مسئلے میں سنگینی تب پیدا ہوئی جب نواب مری تحریک کی اہم زمہ داریاں اپنے بیٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں حالانکہ ا س وقت نواب صاحب کے بیٹوں کے علاوہ تحریک میں کافی تجربہ کار ساتھی موجود تھے لیکن ان کو ذمہ داریاں نہیں سونپے گئے۔ آج بلوچ قومی تحریک کے اندر موجود پیچیدگیاں ثابت کرچکی ہے کہ اگر نواب مری اس وقت زمہ داریاں اپنے بیٹوں کے بجائے باصلاحیت تحریکی ساتھیوں کو سونپتے تو شاید آج قومی تحریک یا کم از کم بی ایل اے کا خط و خال مختلف ہوتا۔

دنیا کے تمام انقلابی لیڈران نے اپنے سماج اور تحریک کی کمزوریوں اور پیچیدگیوں کی نشاندہی کی ہے اور سماجی تبدیلی کے لیے تھیوری پیش کیے ۔ لیکن نواب خیر بخش مری جیسے انقلابی انسان بلوچ سماج اور تحریک کی کمزوریوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے ۔نواب جیسے انسان کی خاموشی سے آج یہ تلخ سوال پیدا ہوگئے کہ بلوچ کا مستقبل بلوچ کے ماضی کو کیسے پڑھے گا؟ کیسے اپنی غلطیاں نہیں دوہرائے گا؟ میرا اپنا نقطہ ہے کہ بعض اوقات خاموشی بہترین ہے لیکن بعض جگہ خاموشی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور شائد آج ہم بھگت رہے ہیں ۔

نواب صاحب کو تحریک میں وہ مقام حاصل تھا جو شاید دوبارہ کسی کو نہ ہو، جب نواب صاحب افغانستان گئے تو یہ کہا گیا کہ نواب صاحب نئی جنگ کی تیاری کرنے گئے تھے لیکن جب 2000 کی جنگ کا آغاز ہوا تب نیا کچھ سامنے نہیں آیا۔ و ہی غلطیاں تھیں جو 70 میں کیے تھے وہی 2000 ء میں دہرائیں گئے۔
میر عبدل نبی بنگلزئی اپنے حالیہ انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ‘‘ نواب صاحب کے وقت بی ایل اے محض ایک نام تھا، جو درحقیقت نواب صاحب کا ذات اور اپنا قبائلی تنظیم تھا، میں بھی اسی میں شامل تھا۔ اس تنظیم کا جو بھی مرکز یا‘‘ہڑکُڑ’’تھا، وہ دراصل نواب صاحب کی زات تھی‘‘ ۔ آخر وہ کونسے وجوہات تھے نواب صاحب قبائلی اثر سے نکل نہیں پایا اور قبائلی رکاوٹوں کو توڑ نہیں سکا ۔
بہت سے سوال میرے جیسے زہنوں میں گردش کرہے ہیں جس کا جواب تو شاید اب کوئی نہ دے پائے لیکن اب یہ ہم پر ہے کہ ہم تحریک کہ مردہ خانوں کو کیسے اُکھاڑیں گے اور کیسے اداروں کو مظبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

شاہ محمد مری‘‘نواب خیر بخش مری کے انٹرویوز‘‘ کے پیش لفظ میں کہتے ہیں‘‘ بیشک اختلاف رکھ کر پڑھئے لیکن یہ سوچ کر پڑھئے کہ یہ ایک عام
فرد اور ایک عام لیڈر کے بارے میں نہیں لکھا، یہ بلوچستان کے بارے میں لکھا ہے، بلوچستان کی حالیہ تاریخ کے بارے میں لکھا ہے جو بندر عباس سے لے کر تونسہ تک مقبول ہیں’’لیکن بطور سیاسی کارکن پوچھنا اور سوال کرنا میر ا حق ہے۔

dailysangar.com/home/page/11351.html

twitter
Youtube
Facebook