بلوچ خواتین کی عصمت دری، ایک کربناک باب



بلوچ خواتین کی عصمت دری، ایک کربناک باب

Jul 16, 2018, 10:42 pm

اداریہ
حالیہ بلوچ قومی آزادی کی جہد میں بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کے واقعات جنرل مشرف دور سے شروع ہوئے۔اس کے بعد ہر دور کے حکومت میں خواتین پر جبر کے نئی اشکال سامنے آئے۔
2017 اور 2018 میں اس میں شدت دیکھنے کو آیالیکن اس سے قبل بھی بلوچ خواتین کی پاکستان کی اسلامی فوج کے عقوبت خانوں میں جنسی تشدد،عصمت دری کے متعدد دلخراش واقعات سامنے آئے ہیں جو اپنے ادوار کے جبر کے تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
زرینہ مری کی پاکستانی فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد، عصمت دری کی سسکتی داستان بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے بلوچ خواتین کی عزت اور ننگ وناموس پر پہلا حملہ تو نہیں لیکن بنگلہ دیش میں اپنی جنسی تشنگی اور بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کی رسوائی کا بدلہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کی جنسی تشدد،عصمت دری اسی بدنام زمانہ ننگی جارحیت کا تسلسل ہے ۔
پاکستانی فوج نے ضلع واشک اور اورجھاؤ سے درجنوں خواتین کوکیمپ لے جاکر اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا انکی عصمت دری کی اور یہ سلسلہ اب دیدہ دلیری کے ساتھ جاری ہے ۔مزیدخواتین کو اغوا کرکے اپنے عقوبت خانوں میں لے جارہی ہے۔پاکستانی فوج کی یہ مذموم حرکت یقیناً کوئی نیا مظہر نہیں ہے ، قبل ازیں 70 کی دہائی میں کوہستان مری میں بھی وہ خواتین کو اغوا کرنے کے گھناؤنے فعل میں ملوث رہی ہے ۔ پاکستانی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ڈیرہ بگٹی اور کوہستان سے مری سے خواتین کے اغوا کی دلدوز اطلاعات سامنے آئیں ، چند مہینے قبل مشکے سے بھی پاکستانی فوج خواتین کو اغوا کرنے کے گھٹیا فعل میں ملوث پائی گئی ، پاکستانی فوج کے نامہ اعمال میں سینکڑوں بنگالی خواتین کی جنسی تشدداورعصمت دری کا کریہہ داغ بھی چسپاں ہے ۔
خواتین کو عموماً جنگوں میں کمزور ترین ہدف سمجھا جاتا ہے ، اعلیٰ ظرف متحارب فریق عام طور پر خواتین، بچوں اور ضعیف العمر افراد کو نشانہ نہیں بناتے ، مگر چونکہ کم ظرفی اور گھٹیا پن پاکستانی فوج کا وطیرہِ امتیاز رہا ہے اس لئے اس سے اس قسم کی حرکت کی ہمیشہ توقع رکھی جانی چاہیے ۔
خواتین کو نشانہ بنانے کے پیچھے بلوچ آزادی پسندوں کو اجتماعی سزا دینے کی نفسیات کارفرما ہے ۔ گویا پاکستانی فوج اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ بلوچ آزادی پسندوں کو اپنے فکر و عمل پر ثابت قدم رہنے کی سزا انفرادی حوالے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان اور بالخصوص کمزور ترین ہدف گھریلو خواتین کو نشانہ بنا کر دینا چاہیے ، اس کے پسِ پشت یقیناً یہی سوچ ہوگی کہ آزادی پسند خاندان اور بالخصوص خواتین کی حساسیت کے پیشِ نظر تائب ہوجائیں گے اور پاکستانی نوآبادکار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے ۔ مزید یہ کہ اس شرمناک پالیسی کو دیکھ کر شاید دیگر آزادی پسند بھی دباؤ کا شکار ہوکر خود کو سرینڈر کردیں ۔
پاکستان کی یہ پالیسی کس حد تک کامیاب رہے گی اس کا حتمی جواب سرِ دست ممکن نہیں ، ماضی کے تجربات کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو غالب امکان یہی ہے کہ اس گھٹیا پاکستانی پالیسی کی کامیابی کے امکانات شاید اتنے نہ ہوں جتنے پاکستانی تھنک ٹینک سوچ رہے ہیں ۔
ماضی میں مری بگٹی سرمچاروں سمیت ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو بھی اسی طریقے سے دباؤ میں لانے کی ناکام کوشش کی جاچکی ہے ۔ اس تمام تر قضیے میں ایک نکتہ جو سب سے زیادہ تشویشناک ہے وہ قوم پرستی کے نام پر پارلیمانی سیاست سے جڑی پارٹیوں اور دانشوروں کی بے حسی پر مبنی خاموشی ہے ۔ بلوچ خواتین کی بے توقیری ایسا معاملہ نہیں جسے چند جماعتوں یا افراد تک محدود رکھا جاسکے ، یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس پر ایک قوم کے ہر فرد کا پوزیشن لینے کی ضرورت ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے نام نہاد الیکشن میں ناچنے والے “قوم پرست” اس اہم قومی مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ، اس جرم پر قوم شاید ہی انہیں کبھی معاف کرے گی۔
بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ خواتین پر دست درازی،اجتماعی جنسی زیادتی اور انکی عصمت دری کا نیا سلسلہ ایک انتہائی دردناک اور اذیت کوش باب ہے ۔عالمی برادری ، انسانی حقوق اور انصاف کے عالمی ادارے پاکستانی فوج کی بنگلہ دیش طرز کی عورتوں پر جنسی تشدد، عصمت دری اور انکے قتل میں براہ راست ملوث ہونے کے مجرمانہ فعل کا نوٹس لیں اور ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دیکر مذکورہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرے اور متاثرہ خاتون اور ان کے اہلخانہ سے پاکستانی فوج کی کرتوتوں کی ننگی داستان سن لے اور مشاہدہ کرے جو انتہائی دردناک اور کربناک ہے جس کی کیفیت وہ متاثرہ خواتین ہی بتاسکتی ہیں جو اس درد سے گزرے ہیں اور ان کی روحیں گھائل ہیں ۔
پاکستانی فوج نے بلوچستان بھر میں میڈیا بلیک آؤٹ کرکے سب اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے ۔اور اسکی ننگی جرائم کسی کو نہیں دکھتے سوائے ان بلوچستان باسیوں کے جو اس اذیت سے گزر رہے ہیں ۔اس پر مستزادپاکستان کی میڈیا کوبھی سنسر شپ کے ذریعے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے جس سے وہ اپنی ننگی جارحیت کوبنا کسی خوف و خطر آگے لے جارہی ہے جو عالمِ انسانیت کیلئے ایک المیہ ہے اور اس پر دنیا بھر میں بحث کا شروع ہوچکا ہے جو اس اسلامی فوج کی کالے کرتوت اور جنگی جرائم کا
واضع ثبوت ہے ۔

 

http://dailysangar.com/home/page/11959.html

 

 

 

13Shares
 11
twitter
Youtube
Facebook