تحریر:عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
کتاب غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہے، غور و فکر انسان کو حکمت و دانائی اور معرفت کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب انسان کو طمانیت ،شعور آگہی اور وجدان کے خزینے عطا کرتی ہے۔ کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور وسعت سے نوازتی ہے۔ کتاب نئے منزلوں سے روشناس کرواتی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کتاب سے دوستی قوموں کی معاشی، سماجی، سائنسی اور تہذیب و ثقافت کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ ارسطو جس کی کتابیں اڑھائی ہزار سال بعد بھی علم و آگہی کا سمندر ہیں۔ جو سکندر اعظم کا استاد تھا۔ اپنے استاد ارسطو کے بارے میں سکندر اعظم نے کہا تھا ’’ میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن میرا استاد مجھے آسمان پر لے گیا‘‘۔ یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈس نے لکھا ’’جو نوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کیلئے مردہ ہوتا ہے۔‘‘ دنیا کتاب پڑھنے والے کو جب بے شمار نوازتی ہے، تو کتاب لکھنے والے کے کمالات اور خوبیوں کا شمار کرنا ہی ناممکن ہوگا۔ ہر شخص تخلیق کار اور لکھاری نہیں ہو سکتا۔ کتاب پڑھنے والے باشعور اور مہذب قوموں کے باشندے ہوتے ہیں۔ کتاب کی شان یہ بھی ہے کہ یہ ہر شک کو دور کر دیتی ہے اورانسان کو یقین کی قوت سے مالا مال کر دیتی ہے۔
کتاب کی ابتداء انسان کی پیدائش سے ہی ہوتی ہے۔ کاغذ کی ایجاد سے پہلے انسان نے ہاتھی کے دانت، درختوں کی چھالوں‘ پتوں‘ چٹانوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں۔ جیسے ہی کتاب و علم سے ناطہ ٹوٹا پستی اور ذلت نے گھیر لیا۔ اگر تاریخ کے پنوں کو ٹٹول کر دیکھا جائے تو کئیوں کہانیاں مل جاتی ہیں، کئی عظیم ہستیوں کے بارے میں ان مٹ تحاریر موجود ہیں، جنہوں نے اپنا آج انسانیت کی بقاء، اپنے زمین، اپنے وطن، اپنے راج کے کل کے لیئے قربان کیا اور تاریخ کے پنوں پر وہ نشانات ثبت کئے ہیں جو مٹانے سے بھی نہیں مٹتے.
کہتے ہیں کہ کتاب کی ارزشت سے کوئی انکاری نہیں لیکن کبھی کبھار اس خطہِ کائینات میں چند ایسے اشخاص جنم لیتے ہیں جو چلتے پھرتے کتاب کی مانند ہوتے ہیں، کس کو یقین تھا کہ خاموش طبیعت کے مالک گوتم بدھ کے نظریئے سے متاثر انتہائی کم گو شخص اپنے وطن اپنی قوم کے سوئے ہوئے اس طبقے کو اپنے علم اپنی رہنمائی اور اپنے نصیحتوں سے جگا دے گا۔ جس کا مثال رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ قندیل کی مانند روشنیاں بکھیرنے والا وہ انسان صباء تھا، جو باد صباء کی طرح چلتا رہا اور سارے فضا کو معطر کرتا چلا گیا.
2ستمبر 1953کو لیاری میں پیدا ہونے والا شخص غلام حسین کی شکل میں طلوع ہونے والا سورج ایک نئی صبح کی صورت میں نمودار ہوا۔ زندگی کے شاہراہ پر چلتے ہوئے ہر قدم پر بلوچ قوم کی رہنمائی کرنے والا بلوچ قوم کو مذہب و دین سے لیکر فلسفے کی حرف تک، فلسفے سے لیکر سائنس تک، زبان سے لیکر قومیت تک اور غلامی سے لیکر آزادی تک سے آشنا کرنے کا بیڑا اٹھانے والا وہ انسان عظیم تھا عظیم رہیگا. وہ بلوچ سرزمین بلوچ قوم کے لیئے ایک درسگاہ تھے، چلتے پھرتے درسگاہ کتاب کی مانند اپنے ہر حرف سے اپنے قوم کی رہنمائی کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ وہ امر ہونے والے مقصد کو لیکر محوِ سفر تھے. کبھی شال کی سرد راتوں میں بنا کسی شال کو اوڑھے اپنے طلباء کو علم کی روشنیوں سے مالا مال کرنا اور کبھی کیچ کی گرم ہواؤں اور جلتی دھوپ میں اپنے راج کو غلامی کا احساس دلا رہا تھا۔ کبھی ہم نے دیکھا وہ چندہ اکھٹا کررہے ہیں، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ یہ محسوس کرچکے ہیں کہ ان کا قوم پیاسا ہے، اس کی تشنگی کو مٹانا وقت کی ضرورت ہے۔ علم کی تشنگی کو بھانپ کر اس ہستی نے بلوچ قوم کے لیئے گراں بہا سوگات کی داغ بیل ڈالی، یہ وہی سوگات ہیں، جہاں ہنوز بلوچ راج اپنے علم کی پیاس بجھا رہی ہے۔ جی ہاں! وہ عظیم ادارہ سید ہاشمی ریفرنس لائیبریری ہی ہے. جو آج بلوچ کے لیئے ایک دانشگاہ کی حیثیت رکھتا ہے.
صباء کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ زندگی اہمیت کیا ہے اور زندگی کے ہر لمحے کو کس طرح سنہرا کیا جاسکتا ہے، انہیں شاید یہ بشارت ہو چلی تھی کے زندگی کا ختم ہونا اٹل ہے، کیوں نا اس مقصد کو مزید عظیم کیا جائے، جس کی اہمیت کا اندازہ اس کے قوم کو نہیں، اسی مشن کو لیکر وہ میدان کے پرخار راستوں کے راہی بنے، وقت کے ساتھ ساتھ وہ عظیم استاد کی روپ میں ایک سخت گیر آزادی پسند رہنماء کی طرح اپنے قوم کی رہنمائی میں مصروف دکھائی دیئے.اسی پر خار راہ کا مسافر بن کر یکم جون 2011 کو شال میں چلتن کے پیچھے لہو میں ڈوبتے سورج کی طرح صباء کو بھی اپنی سرزمین کی آغوش میں ہمیشہ کیلئے سلایا جاتا ہے۔
صباء کے دشمن شاید اس خوش فہمی میں ہوں کہ انہوں نے روشنی کو مار دیا ہے، لیکن روشنی کو اندھیرا ختم کرے، یہ انہونی ہے.ان کی دی ہوئی علم جانکاریاں نصیحتیں کتاب کی اہمیت و افادیت سمیت سیاسی میدان میں دشمن کی چالاکیوں کو سمجھنا اور نئے راہوں کو تلاشنے کا کا ہنر یقیناً ہمارے لیئے وہ سنہرے سوغات ہیں جن کی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا. بلوچ قومی تحریک شہید صباء کا قرض دار ہے، صباء کو خراج پیش کرنا ہے، تو ان کی لگائی ہوئی شجر کو جنہیں انہوں نے اپنے خون پسینے سے اگایا تھا اس شجر کو توانا کرنا ہوگا. مردہ پرستی سے بالا تر ہوکر ان کی دی ہوئی علمی سوگات کو کونے کونے تک پھیلائیں تب تک شہید صباء کا قرض اتر نہیں جاتا۔.
.facebook.com/photo.php?fbid=2287139501371990&set=a.452768264809132&type=3&theater