قابض ایران کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی اور تیرہ نومبر تحریر: ڈاکٹر سلطان بلوچ


ہمگام کالم : تیرہ نومبر یوم بلوچ شہدا بلوچستان میں ایک اہم تاریخی پس منظر رکھتی ہے، بلوچستان کے فرزند چاہے ایرانی گجر کے ہاتھوں شہید کئے گئے یا پنجابی دہشت گرد بے لگام فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ان سب بلوچوں کے لہو کا نعم البدل بلا شبہ بلوچ سرزمین کی آزادی ہے۔ جب ہم بلوچ قومی شہدا کی بات کرتے ہیں تو پھر ان عظیم قربانی کو علاقائی ، پارٹی اور گروہی عینک سے دیکھنے کی بجائے بلوچ و بلوچیت کی عینک سے دیکھ کر ان کی شعوری جزبہ آزادی کو سراہتے ہوئے  بلوچ درد مند ہونے کے اپنے دعووں کو سچ ثابت کرنا ہوگا۔ کچھ لوگ بلوچ قومی آواز بننے کی ناٹک تو کرتے ہیں لیکن بلوچ کے دکھ و درد اور مشترکہ دشمن کو مشترک سمجھنے کی بجائے سمجھوتہ کرکے شہدا کو تقسیم کرنے کی قومی جرم کا مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ لاشعوری نہیں بلکہ شعوری طور پر ایک (ایران) قابض کو ہری جھنڈی جبکہ  دوسرے (پاکستان) پر آنکھیں لال کرکے انقلابیت اور قومی تحریک میں جاندار کردار ہونے کی اداکاری کرتے ہیں۔ ایرانی قابض ریاست کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ کر شہید ہونے والے بلوچ شہید کا وارث ان خود ساختہ لیڈروں سے یہ سوال پوچھنے کا حق محفوظ رکھتے ہے کہ تیرہ نومبر کے دن کو قومی دن تسلیم کرنے کے باوجود وہ مغربی بلوچستان پر قابض گجر پر اتنا مہربان کیوں ہیں؟
شہید نواب مہراب خان نے جب انگریز کو للکارا تو کیا صرف پاکستانی زیر قبضہ والے بلوچستان کی ملکیت کا دعوی کرکے اپنی جان و مال قربان کیا تھا ؟
نہیں بلکہ انہوں نے متحدہ بلوچستان کے دفاع میں اور اس دفاعی جنگ میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے غیور بلوچ بھی برابر شریک تھے اور شریک ہیں اور مستقبل میں شریک رہیں گے۔ شہید مہراب خان محض بلوچستان کے ایک مخصوص علاقہ یا حصے کی نمائندگی نہیں کیا تھا۔ تیرہ نومبر کا دن گولڈ اسمتھ اور ڈیورنڈ لائن کی آر پار بلوچ شہدا کے ورثہ کو ایک ہی دن اور ایک ہی چھتری تلے جمع کرنے کا ایک بہترین اور اہم پلیٹ فارم ہے۔

ہفتہ 16 نومبر, 2019

ہمگام کالم : تیرہ نومبر یوم بلوچ شہدا بلوچستان میں ایک اہم تاریخی پس منظر رکھتی ہے، بلوچستان کے فرزند چاہے ایرانی گجر کے ہاتھوں شہید کئے گئے یا پنجابی دہشت گرد بے لگام فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ان سب بلوچوں کے لہو کا نعم البدل بلا شبہ بلوچ سرزمین کی آزادی ہے۔ جب ہم بلوچ قومی شہدا کی بات کرتے ہیں تو پھر ان عظیم قربانی کو علاقائی ، پارٹی اور گروہی عینک سے دیکھنے کی بجائے بلوچ و بلوچیت کی عینک سے دیکھ کر ان کی شعوری جزبہ آزادی کو سراہتے ہوئے  بلوچ درد مند ہونے کے اپنے دعووں کو سچ ثابت کرنا ہوگا۔ کچھ لوگ بلوچ قومی آواز بننے کی ناٹک تو کرتے ہیں لیکن بلوچ کے دکھ و درد اور مشترکہ دشمن کو مشترک سمجھنے کی بجائے سمجھوتہ کرکے شہدا کو تقسیم کرنے کی قومی جرم کا مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ لاشعوری نہیں بلکہ شعوری طور پر ایک (ایران) قابض کو ہری جھنڈی جبکہ  دوسرے (پاکستان) پر آنکھیں لال کرکے انقلابیت اور قومی تحریک میں جاندار کردار ہونے کی اداکاری کرتے ہیں۔ ایرانی قابض ریاست کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ کر شہید ہونے والے بلوچ شہید کا وارث ان خود ساختہ لیڈروں سے یہ سوال پوچھنے کا حق محفوظ رکھتے ہے کہ تیرہ نومبر کے دن کو قومی دن تسلیم کرنے کے باوجود وہ مغربی بلوچستان پر قابض گجر پر اتنا مہربان کیوں ہیں؟
شہید نواب مہراب خان نے جب انگریز کو للکارا تو کیا صرف پاکستانی زیر قبضہ والے بلوچستان کی ملکیت کا دعوی کرکے اپنی جان و مال قربان کیا تھا ؟
نہیں بلکہ انہوں نے متحدہ بلوچستان کے دفاع میں اور اس دفاعی جنگ میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے غیور بلوچ بھی برابر شریک تھے اور شریک ہیں اور مستقبل میں شریک رہیں گے۔ شہید مہراب خان محض بلوچستان کے ایک مخصوص علاقہ یا حصے کی نمائندگی نہیں کیا تھا۔ تیرہ نومبر کا دن گولڈ اسمتھ اور ڈیورنڈ لائن کی آر پار بلوچ شہدا کے ورثہ کو ایک ہی دن اور ایک ہی چھتری تلے جمع کرنے کا ایک بہترین اور اہم پلیٹ فارم ہے۔
شہدا ہم سب کے مشترک ھیروز ہیں انہیں چابہار کا گہرا سمندر اور گوادر کی نیلا سمندر جھک کرسلام پیش کرتا ہے،انہیں ڈیرہ بگٹی، کاہان، جھالاوان، مکران،رخشان،ساراوان اورہرمز و کرمان کی بلند وبالا کوہسار، وادیاں اور ریگستان سلوٹ کرتے ہیں اور شہدا کی لہو کی خوشبو سے پوری دھرتی کو معطر کرتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں شہدا کو محدود کر نے والے؟
کیا گجر کی دہشت گردی کا شکار بلوچ ہماری طرف نہیں دیکھ رہے؟کیا بلوچ سرزمین کی باسی کی حیثیت سے ہم گولڈ اسمتھ لائن کی عارضی لکیر کے دونوں جانب بلوچ سے صرف خاندانی اور ذاتی رشتوں کے بندھن سے جڑے ہیں یا ہمارا ان سے نظریاتی،قومی اور حب الوطنی کا بھی رشتہ ہے جو ہمیں مشترکہ دشمن کےخلاف متحدہ محاذ تشکیل دینے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔
ایک عام باشعور بلوچ کا بنیادی فرض ہے کہ ہم تیرہ نومبر کے پروگرامز میں گجر کے ہاتھوں مارے جانے والے بلوچ فرزندوں کی تصاویر اورکوائف آویزاں کریں اور کھل کر ایرانی قابض فورسز کے خلاف بلوچ قومی بیانیہ کی ترویج کریں تاکہ ہمارے کہنے اور عمل کرنے میں کوئی تضاد نہ رہے۔
ایران کو ایک قابض ملک تصورکرنا کافی نہیں ہے ہمیں ایران کی آئے دن بلوچوں کی نسل کشی پر بھی آواز بلند کرنا ہے تب جاکر کہا جاسکتا ہے ہم واقعی بلوچ شہدا کے حقیقی وارث ہیں۔
ہم آستین چڑھاکر القاعدہ وطالبان طرز کی دھمکی آمیز لہجے میں ویڈیوز ریکارڈ کراکر شہیدوں کا بدلہ لینے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ایران کے ہاتھوں شہید اپنے بلوچ بھائی کی شہادت پر مجرمانہ غفلت کا شکارہیں۔
ہم بلوچ شہدا کی خود ساختہ وراثت کی ڈینگیں تو مارتے ہیں لیکن ایرانی گجر کے ہاتھوں یتیم بلوچ بچوں کی پرسان حال بننا تو درکنار ایران کا نام لینے کی جرات بھی نہیں کرتے۔ایران کی اطلاعات اور پنجابی آئی ایس آئی کی دہشتگردی میں تمیز کر نے والے دوغلا پن کا شکار طبقہ سے بلوچ قومی جہد کے بیڑے کو پار کرانے کی توقع رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، ہاں جس دن ہم سب نے مل کر گجر اور پنجابی کی بچائی گئی سرحدی مصنوعی باڑ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر باندھ لیا اس دن ہمارے اچھے دنوں کی شروعات ہوگی۔ جس دن ہم گجر اور پنجابی کے ہاتھوں شہید ہونے والے بلوچوں کے جنازوں کو مل کر کندھا دینے کے لیے اکٹھے ہوئے اس دن ہم واقعی بلوچیت کی تعریف پر پورا اتریں گے۔جس دن ایرانی فورسز کے ہاتھوں بیوہ ہونے والا بیوی اوریتیم بلوچ بچہ پاکستان سے لڑنے والے بلوچ کو اپنا سرپرست اور اس کے گھر کو اپنا گھر سمجھنے لگے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنے بندوق کی گولیاں اورنوالہ شریک کرنے لگے تب جاکر ہم بلوچ گلزمین پر قابض طاقتوروں سے جیت سکیں گے، اس دن ہماری غلامی کے ایام گھٹنا شروع ہونگے۔ایرانی مظالم پر آنکھیں بند کرنے والوں کو قومی کٹہرے میں کھڑے ہوکر اپنی موقف کو واضح کرنا پڑیگا کہ وہ کونسی معاہدے اور سودے بازی کا مسودہ ہے کہ جس کے بعد وہ ایرانی زیر تسلط بلوچ خون کو ارزاں قرار دے کر فراموش کرچکے ہیں؟

h umgaam.net/قابض-ایران-کے-ہاتھوں-بلوچ-نسل-کشی-اور-تی/

twitter
Youtube
Facebook