Rememrance Day of Khair Bakhsh Marri- A Baloch Legend


Image may contain: 1 person, text that says "Nawab Khair Bakhsh Marri 28 Feb 1928 10 June 2014 Freedom should be our only goal Independent Balochistan is the only guarantor of our national existence and identity. (Baba Marri) Long Live Free and United Balochistan"Image may contain: one or more people and text

Baba Khair Baksh Marri(KB) 28th Feb 1928 to 10th June 2014.
Khair Baksh Marri popularly known as KB one of the greatest leader Balochistan have ever produced. To many KB was a powerful chieftain or Nawab of Marri tribe with an impressive personality, remained a mystery despite being a member of an established sociopolitical elite. He maintained a consistent and active interest in theory and practice of Marxism. He also gradually came to be known for his straight talk on nationalist question. KB a man with iron will and strong nerves remained strongly committed to the ideal of independent Balochistan. He remained steadfast until the very end.

بندوق ہاتھ سے گرنے نہ پائے، کیونکہ دشمن کے ہاتھ میں بھی بندوق ہیں، وہ ہمیشہ بندوق کی زبان میں بات کرتا ہیں۔ ایک ساتھی کے شہادت یا زخمی ہونے کے بعد دوسرا ساتھی بندوں کو اٹھائے یہی بندوق دشمن کو تکلیف پہنچاتی ہیں۔
بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری

Image may contain: ‎1 person, ‎text that says "‎سردار خير بخش مرى مختصر حالات زندگی اداره سنكر‎"‎‎
Zahid Baloch

سردارخیربخش مری بلوچ کی مختصر حالاتِ زندگی
ادارہ سنگر
خیربخش مری کا جنم28فروری1929ء بروزبدھ نواب مہراللہ خان مری کے ہاں کوہستان مری کے صدرمقام کاہان میں ہوا۔
خیربخش نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کاہان کے مقامی سکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد گرائمر اسکول کوئٹہ اور باقی تعلیم ایچی سن(چیف) کالج لاہور سے حاصل کی۔
1941ء کی دہائی میں جب خیربخش ایچی سن کالج میں زیرتعلیم تھے تو ان کے ساتھ شہید نواب اکبرخان بگٹی، سردار شیربازخان مزاری اور مرحوم احمد نوازبگٹی بھی اسی کالج میں پڑھتے تھے۔ اتفاق سے شیربازخان مزاری اور خیربخش کالج کے ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں قیام پذیرتھے۔
سردار شیربازخان مزاری کے مطابق کالج میں خیربخش بہت ہی شرمیلے، تنہا پسند اور دیگر طلباء سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ اپنے لئے بہتر اور اچھے سے اچھے لباس کا انتخاب کرکے زیب تن کرتے تھے اور گاہے بگاہے آئینے میں دیرتک اپنا چہرہ دیکھتے گویا خیربخش اپنے ہی عشق میں مبتلا تھے اسی اعتبار سے وہ مشہور ہوئے اور کالج میں پہچانے جانے لگے تھے۔ اس زمانے میں انتہائی مذہبی بن گئے تھے۔ باقاعدگی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ مذہبی ہونے کے باعث ان کی شلوار مولویوں کی طرح ٹخنوں تک اوپر چڑھی ہوئی تھی۔ جمعہ کے روزجمعہ پڑھنے کی تیاری میں و اش روم میں زیادہ وقت لگاتے تھے۔ غالباََ اسی عادت کے کارن اس عمرمیں بھی نہانے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں۔
خیربخش سنیما دیکھنے بھی جایا کرتے تھے ان کا دھیان امریکہ کی طرف تھا۔ اس لئے امریکن فلمیں زیادہ دیکھا کرتے تھے۔ چونکہ امریکن فلموں میں اکثر جنگی اور ظلم وجبر پر مبنی مناظر دکھائے جاتے تھے اور باوردی فوجی جہاں جاتے تباہی مچاتے،قتل عام کرتے، لوگوں کا مال متاع لوٹتے۔ ان فلموں سے ان کی ذہنی کیفیت میں تبدیلی آئی۔ ان کے ذہن میں امریکہ کے بارے میں خدشات پیداہونے لگے اور باوردی فوج کے خلاف نفرت سی پیدا ہوگئی۔ دراصل وہ امن اور مصالحت کے داعی تھے۔ا نسانوں کے درمیان امن وآتشتی چاہتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان دنوں ان کا نظریہ ء فلسفہ ان کی عاجزانہ زندگی میں عیاں تھا۔ اگر راستے میں کوئی کیڑا، چیونٹی یا رینگنے والا کوئی بھی جاندار ان کے سامنے آجاتا تو وہ اُسے اٹھا کر راستے سے ہٹالیتے تاکہ پاؤں تلے مسل نہ جائے۔ (وہ آج بھی اپنی اس عاجزی پرقائم ہیں) کراچی میں ایک ملاقات کے موقع پر ایک ننھی سی چیونٹی ان کے قمیض پر چل رہی تھی جب اسے ہٹانے کے لیے ہا تھ بڑھایا تو فوراً ملاقاتی سے کہا کہ اسے جان سے نہیں مارنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کالج سے فراغت کے کافی عرصہ بعد خیربخش جب سن بلوغت سے نکل کر ایک مارکسسٹ بن گئے تو ان کے اندر ایک غیر متوقع تبدیلی آئی۔ ان کے بدن کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے تھے۔ جگہ جگہ ان پر پیوند لگی ہوتی تھی۔ وہ تمام لوگ جو کالج کے زمانے سے انہیں جانتے تھے وہ ان کی اس تبدیل شُدہ صورتحال کو قطعاً قبول کرنے کے لئے تیارنہیں تھے۔ان دنوں خیربخش کی ذہنی، فکروخیالات کی کیفیت یہ تھی کہ بلوچ کو کس طرح مارکسی نظریات کے تحت منظم کیا جائے۔ فرسودہ خیالات کے حامل بلوچ قبائل کو کس طرح نیشنلزم کی جانب راغب کیا جائے اور آخری دم تک اسی نظرئیے پررہے۔
نواب بگٹی کا کہنا تھا کہ میں جب اپنے بیٹے سلیم بگٹی کو ایچی سن کالج داخل کرانے گیا تو وہاں کے ایک پُرانے استاد سے میرا سامنا ہوا۔مجھ سے خیربخش کے بارے میں پوچھا کہ وہ مولانا کیسے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ مولانا اب مولانانہیں رہے۔
خیربخش مری شیرخواری کی عمرمیں والدہ اور انتہائی کمسنی میں اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے۔ اپنے والد محترم نواب مہراللہ خان مری کی وفات کے بعد قبیلے کے سردارنامزد ہوئے۔ کمسن اور زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے اس وقت ان کے چچا دوداخان مری کو قبیلے کا نگران سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران خیربخش مری اپنے چچا دوداخان کے ہاں یا لاہور میں قیام کرتے تھے۔ اس زمانے میں والدین کا سایہ سرسے اُٹھنے کے باعث خیربخش اور ان کا چھوٹا بھائی قیصر خان مری عالم یتیمی میں تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پچاس کی دہائی میں نوجوان خیربخش تھری پیس سوٹ میں ملبوس اپنی دوسیٹوں والی لال رنگ کی مہنگی شیورلیٹ کار جس کی سیاہ چھت اوپر کی طرف کھلتی تھی میں بیٹھ کر کوئٹہ کی سڑکوں پربے پرواہ تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے نظرآتے تھے اور سہ پہر کے وقت کوئٹہ جیم خانہ واقعہ پرنس روڈ پر یا کوئٹہ کلب چھاؤنی میں دوستوں (اُمراء) کے ساتھ اسکوائش کھیلنے جاتے۔اُن دنوں خیربخش عملی سیاست اور اس کی پیچیدگیوں سے بے نیاز تھے۔کوئٹہ شہرمیں ان کے پاس اپنا ذاتی گھرنہیں تھا۔ وہ اپنے چچا دوداخان کے ساتھ یا جیل روڈ ہدہ پر اپنی سوتیلی ماں کے پاس رہا کرتے تھے۔ جب سبی جاتے بھی انہی کے ہاں ٹھہرتے۔ان دنوں سردارخیربخش مری انتہائی خوبصورت، توانا اور جوانی کے جوبن پر تھے۔ کوئٹہ، سبّی اور کبھی کراچی گھومتے۔ لیکن اس نے خود کو جمالیات، زُلفوں کی اسیری اور چمک سے دُوررکھا۔ ان کے خیال میں یہ دونوں لذتیں ضرورت بن کر انسان کی کمزوری کا باعث بن سکتی ہیں اس لئے خیربخش شراب نوشی اور تمبا کونوشی سے پرہیز کرتے ہیں۔
نواب مہراللہ خان کا خاموش طبع بیٹا سردارخیربخش مری شاید اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ ایک بڑے اور بہادرقبیلے کے روحانی دیوتا ہیں۔ وہ اپنے قبیلے سے دُور شہروں میں پلے بڑھے، شہروں میں تعلیم حاصل کی اور شہروں میں اپنے لئے دو ست بنائے۔ وہ شاذونادر ہی کوہلو کاہان جاتے۔ اکثر کوئٹہ اور سبّی میں رہتے۔ جب سبّی میں ہوتے تو سینکڑوں کی تعدادمیں مری قبیلے کے افراد اپنے مسائل لے کر ان کے پاس آجاتے۔ ایسا موقع اکثر سال میں ایک بارماہ فروری میں سبّی میلے کے وقت دیکھنے کو ملتا۔ سردار مری گول دائرہ بنا کر ان کے مسائل سنتے، وہ چاہتے تھے کہ قبیلے کے افراد اپنے مسائل بیان کریں۔ ان پر بحث کریں۔ خوداور مقدموں کی باہمی رضامندی سے مسائل کا مناسب حل تلاش کریں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ خود قبیلے کے افراد پر اپنا شخصی فیصلہ مسلط کرنا نہیں چاہتے تھے۔ دراصل وہ اس نظام کو سیکھنے کے عمل سے گزررہے تھے۔ وہ سرداری نظام کے طفیل ماضی کی ظالمانہ روایات واقدامات مثلاََ سرداری ٹیکس، نجی عقوبت خانے، سزائیں دینا اور جرمانے عائد کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
مری قبیلے میں صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ قبیلے کے افراداحتراماً سردار کے آگے جُھک کر سردار کے پیرپکڑتے۔سردار کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑکر چومتے تھے لیکن سردار خیربخش ان روایات کو انسانیت اورقبیلے کی تذلیل سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مری قبیلے کے افراد کسی ایک شخص کے آگے جھکنے کی بجائے سراُٹھا کر جئیں ابتداء میں ان کے اپنے دورسرداری میں بھی قبیلے سے سرداری ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور قبیلے کے افراد پر جرمانے لگائے جاتے تھے۔ ان کا مقررکردہ نائب قبیلے سے جرمانے وصول کرتا تھا ذاتی جیل بھی قائم تھے۔سیاہ کاری کے معاملے میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کی جاتی تھی۔لیکن بہت ہی کم عرصہ میں سردارمری کو ورثے میں ملی ان فرسوہ روایات اور ناانصافیوں کا احساس ہوا۔ اب اپنے لوگوں کو زیادہ عرصہ تک اندھیرے میں رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ قبیلے کے مزاج کے مطابق بتدریج قبیلے کو جمہوری اور معاشی رعایتیں دینے لگے۔
1955ء میں قیام ون یونٹ کے فوری بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے سردارخیربخش مری نے پہلی بار آزادحیثیت سے ضلع سبّی سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے۔مگر ان کی حیثیت اسمبلی میں غیرجماعتی وغیرسیاسی ممبرکی تھی۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنی سیاسی منزل کا تعین نہیں کیا تھا۔ خیربخش اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کراچی چلے گئے۔ اجلاس میں جب ون یونٹ کی قرارداد منظورہوئی تو خیربخش نے قراردادکی مخالفت نہیں کی ماہنامہ”زمانہ بلوچی“ اپریل،مئی2004ء صفحہ 12کے مطابق سردارخیربخش مری، شہید نواب اکبرخان بگٹی، مولوی غلام محمد ہوت اور مکھی محمد بلیدی نے ون یونٹ کی حمایت کی تھی۔ لیکن جلد ہی اس حمایت سے دستبردار ہوئے۔اس دوران خیر بخش ایک پارلیمانی وفدکے ہمراہ سوویت یونین کا دورہ کیا اور اس موقع پر روسی صدر مارشل بلگان اور سابق وزیر اعظم خرو چیف سے بھی ملاقات کی 1955ء میں جب قومی اسمبلی تشکیل دی گئی تو اس میں برٹش بلوچستان کے لئے ایک نشست مخصوص کی گئی پھر یہ نشست بھی خان عبدالغار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کود ی گئی۔شہید اکبرخان بگٹی نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ لیکن بگٹی کی کسی نے نہ سُنی اس احتجاجی مہم میں سردار مری نے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ جب نواب بگٹی ایک وفد لے کر ڈاکٹرخان کے پاس گئے تو اس وفد میں بھی سردار مری شامل نہیں تھے۔ نواب بگٹی جب ڈاکٹر خان کے مقابلے میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرانے گئے تو اس موقع پرخیربخش ان کے ساتھ نہیں گئے۔ان کی عدام دلچسپی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس زمانے میں سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کرتے تھے۔
1958ء میں سردار خیربخش مری اور شیرمحمد مری کی سردارعطاء اللہ مینگل سے وڈھ کے مقام پر اس وقت پہلی ملاقات ہوئی جب سردار مری اور شیرمحمد مری خان قلات میراحمد یار خان کا پیغام لے کر سردار مینگل کے ہاں گئے اور یہیں سے ان دوبلوچ سرداروں کا آپس میں تعلقات کا آغاز ہوا۔
6اکتوبر1958ء کو پاکستان کی فوج بلوچستان کے مرکز قلات میں داخل ہوئی اور خان قلات کو گرفتار کرلیا۔ بلوچستان پرفوج کشی ہوئی، خان کی گرفتاری اور سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا نوجوان خیربخش مری پرگہرا اثر ہوا اور وہ سخت آزمائش میں پڑگئے۔ مگر اس موقع پر وہ لوگوں کو صرف تسلیاں دیتے رہے۔ خیربخش مری نے نواب نوروزخان کے ساتھ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک پر ہونے والے عہدوپیمان اور نواب نوروزخان سے ہتھیار ڈالوانے کا منظر دیکھا۔ 15جولائی1960کو نواب نوروزخان کے بیٹے اور چھ(6)بلوچوں کو پھانسی کے تختہ دار پر جھولتے بھی دیکھا۔ شہداء کی لاشیں جب حیدرآباد اور سکھر سے سڑک کے راستے بلوچستان لائی جارہی تھی تو اس وقت سردار مری اپنے ساتھیوں سمیت ڈھاڈر کے مقام پر صف اول پرکھڑے تھے اور کوئٹہ تک لاشوں کے ساتھ سفر کیا۔ کوئٹہ سے باہر جانے پرپابندی کی وجہ سے شہداء کی تدفین میں شرکت نہ کرسکے جس کا انہیں شدید ارمان تھا۔ اس موقعہ پر خیربخش مری نے کہا کہ نواب نوروزخان کو ایک انڈے کے مطالبے پر اتنی بڑی سزاملی ہے تو پھر پورے پولٹری فارم کا مطالبہ کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچوں کی جدوجہد قبائلی تھی آج سے سیاسی رُخ اختیار کرتی چلی جائے گی۔آغا عبدالکریم کی بغاوت اس کا پہلا عملی اظہارتھا۔گویا اب سردار مری بلوچستان کی سیاست پر نظررکھنے لگے تھے۔ وہ قادر بخش نظامانی، بلوچ قومی تحریک کے بانی میرعبدالعزیز کرد، گل خان نصیر، ملک فیض محمد یوسفزئی، محمد حسین عنقا، عبدالرحیم خواجہ خیل، نواب یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں کی1922ء،1935ء اور 1947ء تک ”انجمن نوجوانان بلوچان“،”انجمن اتحادبلوچان“ اور قلات نیشنل پارٹی کے قیام تک کی سیاسی سرگرمیوں، تنظیمی طریقہ کار اور ان کی جدوجہد کی حاصلات، ناکامیوں اور سیاسی حکمت عملی پر غوروفکر کرتے تاکہ ماضی کے سیاسی عمل کو سامنے رکھ کر اس کے تناظر میں مستقبل کی سیاست کا تعین کرسکے۔ دراصل خیربخش بلوچ قومی تحریک کو سیکھنے کے عمل سے گزررہے تھے۔ وہ عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے کمیٹڈ نظریاتی دوستوں کی تلاش میں تھے جو ان کے موقف سے متفق ہوں۔ ان کے خیال میں مستقبل کی سیاست میں میرغوث بخش بزنجو جس نے پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کی مخالفت کی تھی۔ آغا عبدالکریم خان احمد زئی جس نے بلوچستان کے جبری الحاق اور قبضے کے خلاف بلوچ نیشنل لبریشن اسیوسی ایشن کے نام سے پہلی بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ سردارعطاء اللہ مینگل اور نواب اکبرخان بگٹی جو قبائلی اور سیاسی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے بہتر سیاسی ہمسفر اور معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ 1961ء کی دہائی میں جب نواب بگٹی قیدسے رہا ہوئے تو بلوچستان کی سیاست نے نئی انگڑائی لی۔ سردرا مری، سردار مینگل اور نواب بگٹی سیاست کے میدان خاررازمیں داخل ہوکر میرغوث بخش بزنجو کے رفیق سفربن گئے۔ مگرتینوں سرداروں کا مزاج، اندازِ فکر اور سیاسی نظریات مختلف تھے۔جبکہ بلوچ اور بلوچستان کے روشن مستقل کا انحصار ان جری سرداروں کی حکمت عملی سے مربوط ہوگیا اور بلوچستان کے سیاسی سفرمیں ان سب نے میر غوث بخش بزنجو کو میرِ کاروان تسلیم کرلیا۔ ان سب نے متحد ہوکربلوچستان کے مخدوش سیاسی معروضات کو سامنے رکھ کر بلوچستان کے حقوق کے لئے زیرزمین کام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ”آجوئی گل“ کے نام سے خفیہ تنظیم کی بنیادرکھی۔ اور دھرتی ماں کو گواہ بنا کر اپنی مُٹھی میں مٹی اُٹھا کر مقاصد کے اصول تک متحد ہوکر جدوجہد کرنے کا عہدوپیمان کیا۔خیربخش زندگی کے آخری دم تک اپنے اس عہد و پیمان پر قائم رہے۔ یہ مقام خیربخش کی سیاسی زندگی میں مُسرت کا باعث تھا کیونکہ ان کے خیال میں ہم خیال دوست پیدا کرنے کے بعد ایک خفیہ تنظیم کی بنیاد تک رسائی ان کی دوسری کامیابی تھی۔ لیکن اندر سے جو چیز انہیں چُھب رہی تھی وہ اعتماد سازی کا مرحلہ تھا جو ابھی آیا نہیں تھا۔ا گلے دن جب میرغوث بخش بزنجو نے تنظیم سے اپنے لاتعلقی کا اظہار کرکے مُکر گئے تو اس دن سے مری کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ تنظیم کے ساتھیوں کے بکھر جانے کے بعدخیربخش ایک مرتبہ پھر تنہا ہوگئے۔ لیکن وہ اتنی آسانی سے اپنے ساتھیوں کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ سیاسی مراسم اور رابطوں کو ماضی کی طرح قائم رکھا۔
1962ء میں ایوب خان نے مارشل لاء اُٹھا لیا جس کے فوری بعد ڈویژن سطح پر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کردیا۔ انتخابات ایوب خان کے بنائے ہوئے دستور کے تحت بنیادی جمہوریتوں کے ممبروں کے ووٹوں کے ذریعے کرائے گئے۔ سردار مینگل نے نواب بگٹی اور میرصاحب کے مشورہ سے قلات ڈویژن سے انتخابات میں حصہ لیا۔ پھر ان تین بلوچ رہنماؤں نے سردار خیربخش مری کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ مری کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کرتے رہے۔ لیکن خیربخش نے انکارکیا ان کا اصرارتھا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ان کے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے۔خیربخش کو منانے کے لئے تین دنوں تک بگٹی ہاؤس کوئٹہ میں میٹنگیں ہوتی رہیں بالآخر خیربخش ساتھیوں کے اصرار پر انتخابات میں حصہ لینے پرآمادہ ہوئے۔ کوئٹہ ڈویژن سے ان کے کاغذات داخل کئے گئے۔
خیربخش مری اور سردار مینگل دونوں ایوب خان کے بنائے ہوئے بی ڈیB.Dممبروں کے ووٹوں سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوگئے۔بلوچستان کے حالات کے تناظرمیں سارے بلوچستان کی نگاہیں مری اور مینگل پر لگی تھیں۔
جون1962ء کو جب قومی اسمبلی کا پہلا سیشن ہو اتو خیربخش نے اپنی پرجوش تقریر انگریز ی میں کی۔ بلوچستان پر ہونے والے ظلم وجبر کے حوالے سے انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر زبردستی قبضہ اور اپنے وسائل کسی کو لوٹنے نہیں دیں گے۔ ہم سے کہا جارہا ہے کہ ہم سڑکیں بنا کرتمہیں دیں گے۔ یہ ترقی نہیں بلکہ ہماری معدنی دولت کی لوٹ کا وسیلہ ہوگا۔ حکمرانوں کو للکارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تم ہم سے ہتھیار چھین کر ہمیں نہتا کرنا چاہتے ہو۔ ہتھیار جو ہماری عزت کا محافظ ہے ہم کو نہتا کرکے ہم پر گولیاں برساتے ہو۔ ہمارے لوگوں پر بم برساتے ہو۔ ہمارے پانی کے چشموں میں زہرملاتے ہو۔ تمہار اخیال ہے کہ بلوچوں کے پہاڑوں میں تمہارے حکم کے خلاف جوبغاوت کی آگ بڑھک اٹھی ہے اس پر اپنی طاقت سے قابو پالو گے۔ یہ تمہارا خیال غلط ہے ہمار ایک قبائلی تمہارے دس اہلکاروں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ انگریزوں کے بوٹ پالش کرنے والے ہمارے حکمران نہیں ہوسکتے۔
مری کی جرأت بہادری سے حکومتی جبرکے خلاف سخت لہجہ استعمال کرنے پر اسمبلی میں خاموشی چھاگئی ابن الوقت، چاپلوس اور خوشامد کرنے والے اراکین اسمبلی ان کی تقریر سے سخت متاثر ہوئے۔ بقول اخبار ”ڈان“ کے ایڈیٹر الطاف گوہر کے،بلوچ سرداروں کی تقریر سے ارکان اسمبلی دم بخود رہ گئے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ قومی اسمبلی کے دوسرے ارکان فرعون کے زمانے کے سادھوؤں کی رسّی کے سانپ تھے اور بلوچ سردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعصاء تھے جو اژدھا بن کر سانپوں کو ہڑپ کررہے تھے۔ اس سیشن کے بعد ایوب خان کی کابینہ کے اہم وزیر مسٹرذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان اور گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیرمحمد خان کا پیغام عبرت بلوچ رہنماؤں تک پہنچایا۔ انہیں خبردار کیا کہ وہ حکومت کی مخالفت سے بازآجائیں۔
الطاف گوہر نے سردار خیربخش مری کی تقریر کے خلاف دوقطسوں میں ”ڈان“ اخبار میں اداریہ لکھا تو اس کے عوض ایوب خان نے انہیں اپنی کابینہ میں وزارت سے نوازا۔
صدرپاکستان ایوب خان کا کوئٹہ آنے کے موقع پرایک روزقبل5اگست1962ء کو کوئٹہ میں بلوچ قیادت نے جلسہ عام کا اہتمام کیا بلوچوں اور بلوچستان پر ہونے والے مظالم کے خلاف سخت تقریریں کیں۔6اگست کوایوب خان کوئٹہ آئے اور ٹاؤن ہال کے سبزہ زار پر مسلم لیگ کے زیراہتمام مسلح افواج کے سخت پہرے میں جلسہ سے خطاب کیا۔ ایوب خان نے بلوچ رہنماؤں کو غداراور ملک دشمن القابات سے نوازا۔ اس نے بلوچ قیادت کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور بلوچ سرداروں کو کھلے عام دھمکی دی کہ وہ بلوچوں کو سیدھا کردیں گے، مسل کر رکھ دیں گے۔
7اگست کو بلوچ قیادت نے مالی باغ کوئٹہ میں اپنا جوابی جلسہ منعقد کیا جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بلوچ رہنماؤں نے صدر پاکستان کی بلوچ دشمن کارروایوں کے خلاف اپنے شدید ردعمل کا اظہارکیا اور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ایوب خان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ خیربخش نے اس تاریخی جلسہ سے بلوچی میں خطاب کیا اوراسی طرح16اگست 1962ء کو کراچی ککری گراؤنڈ لیاری میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جہاں دیگر بلوچ رہنماؤں کے علاوہ خیربخش نے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے بلوچ عوام پر ہونے والی ریاستی مظالم وزیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ جلسے کا حکومت کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ گورنرکالا باغ کے حکم پر 17اگست کو میرغوث بخش بزنجو اور خیربخش مری کے علاوہ دیگر بلوچ قیادت کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔
میربزنجو اور خیربخش مشرقی پاکستان ڈھاکہ چلے گئے اور وہاں کی بنگالی قوم پرست سیاسی قیادت کو بلوچستان میں ہونے والے ایوبی سفاکیت سے آگاہ کیا اور ان سے سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ واپسی پر جب خیربخش مری کوئٹہ آئے تو کوئٹہ سے10کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ھنہ اُڑک کی مقامی آبادی کے ایک وفد ان کی رہائش گاہ پر ان سے ملا قات کی اور شکایت کی کہ حکومت نے ان کی طرف جانے والی پانی کی ترسیل روک دی ہے اور گذشتہ کئی ہفتوں سے ان کا پانی بند ہے جس کی بندش سے آبادی اور باغات متاثر ہورہے ہیں۔ وہ وفد کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ہنہ اُڑک پہنچ گئے اور چھاؤنی جانے والی پانی کے پائپ لائن اکھاڑ کر پانی کا رُخ آبادی کی طرف موڑ دیا۔ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر امجد احمد شیخ نے فوج کے حکم پر سردار خیربخش مری کو اس جرم میں گرفتار کرلیا۔ بعد میں انہیں میرجعفر خان جمالی کی حاضر ضمانتی پر رہائی ملی،لیکن خیربخش ایک دن بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ حکومت نے اس کی پاداش میں جعفر خان جمالی کو90دنوں کے لئے کوئٹہ بدرکردیا۔اس واقع کے بعد جب تک ایوب خان اقتدار میں تھے خیربخش گرفتارنہیں ہوئے۔ ان کی جائیدداد، زمین ضبط ہوئیں، ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود کر دی گیئں، سر کاری چغل خور سائے کی طر ح ان کی نگرانی کر نے لگے ان کی سرداری چھین کر ان کے چچا دودا خان کو انکی جگہ قبیلے کا سردار بنا دیا گیا جسے بعد میں قبیلے کے افراد نے قتل کردیا۔ لیکن ان تمام ترحربوں اور مذموم ہتھکنڈؤں کے باوجود خیر بخش ایوب خان کے طاقت کے آگے خم نہیں ہوئے وہ اس لیے بھی حکومت کے نظروں میں تھے کیونکہ خیر بخش واحد بلوچ سردار تھے جو اپنے علاقے سے حکومت کو تیل نکالنے کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ وہ ان دنوں کسی سیاسی جماعت کے ممبر نہیں تھے۔1964ء میں جب پاکستان میں صدارتی انتخابات ہوئے تو ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان مقابلہ تھا۔ حزب اختلاف کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی اس موقعہ پر سردار مری نے فوجی ڈکٹیڑ کے خلاف جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد کراچی ڈویژن بلوچ آبادی والے علاقہ لیاری کی قومی اسمبلی کی خالی نشست کے لئے ضمنی انتخابات ہوئے ان دنوں صدرا یوب اور گورنر امیرمحمد خان کے درمیان اختلافات تھے۔
ایوب خان نے اس نشست کے لئے خان بہادر حبیب خان پراچہ کو نامز د کیا جبکہ گورنر میر محمد خان اور محمود ہارون کی مشترکہ رضامندی سے میرغوث بخش بزنجو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ ہوئے۔ جب خیربخش کو اس کا علم ہوا تو فوراً کراچی چلے گئے اور میرصاحب کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی مگر میرصاحب نہیں مانے اور انتخابات میں حصہ لیا۔
اس زمانے میں خیربخش مری رشتہ ازدواج میں بندھ گئے ان کی شادی پشین کے قاضی موسیٰ کی دخترسے ہوئی، شادی کے بعد خیربخش کچھ عرصہ کے لئے لٹن(زرغون) روڈ پر اپنے سُسر قاضی موسیٰ کے ہاں رہے جہاں پراب جنرل ہسپتال قائم ہے۔ بعد میں اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ جیل روڈ پر سکونت اختیارکرلی۔ جس کے بعد کواری روڈ پر کرائے کے مکان میں رہے۔ پھر ارباب کرم خان روڈ پر اپنا ذاتی مکان خریدا۔ اس زمانے میں خیربخش کے پاس لال رنگ کی پک اپ گاڑی تھی۔وہ جب کوئٹہ سے سبّی جاتے تو راستے میں کبھی کبھی درہ بولان کے مقام کوند لان کی نہرمیں گھنٹوں تک پانی میں نہاتے، اُن کے ساتھ ان کا نائب (ماسٹر نظیر کے والد) مندے بھی ہوتا تھا۔سبی میں اپنی سوتیلی ماں کے ہاں قیام کرتے جہاں ان کے لئے باقاعدہ چند کمروں پر مشتمل حویلی خالی کی جاتی تھی۔ خیربخش کی سوتیلی ماں خیربخش کو بیٹے جیسا پیاردیتی اوران سے مہرمحبت سے پیش آتی تھی اس نے خیربخش کو کبھی اور کسی موقعہ پر بھی یتیم ہونے کا احساس ہونے نہیں دیا۔
سردارمری لڑاکا مُرغے پالنے کے بڑے شوقین تھے جب کو ئٹہ سے سبی کے دورے پر چلے جاتے تو وہاں اُمراء اور صاحب حیثیت لوگوں کی صحبت میں رہنے کی بجائے اُن عام لوگوں کے قریب رہنے کو ترجیح دیتے جن کو صاحب حیثیت حضرات حقیر اور کم تر جان کر ان سے نفرت کرتے تھے۔ سردار مری ان میلے کُچلے کپڑوں میں ملبوس حقیروں کے ساتھ گُھل مل جاتے اور رات گئے تک ان سے گپ شپ کرتے۔ جن میں لوہار، خانسامہ، ٹانگے بان، مالی، چوکیدار اور محنت مزدوری کرنے والے افراد شامل تھے۔مولا داد، نذیر، بھوٹا نورمحمد جوکُتّے اور اعلیٰ نسل کے مرغ پالنے کے شائقین تھے۔یہ آپس میں لڑاکا نسل کے مُرغوں اور بُلڈاگ نسل کے لڑاکاکُتوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے۔ مرغوں کی نسل کو سندھ اور ہندوستان کے مرغوں کی نسلوں سے جوڑتے اور کتوں کی نسل کو افغانستان کے اعلیٰ نسل کے کتوں سے مشاہبت دیتے۔ ان کی گپ شپ مرغوں اور کتوں کے باپ داد اور پر دادوں کی نسلوں تک جاپہنچتی اور ان کے رکھے گئے نام بھی زیر بحث لائے جاتے۔ ان بے ربط بولنے والوں جن کی اکثریت عام محنت کش طبقے سے تھی جونواب مری کو اپنے درمیان پھاکر خوش تھے جو اپنے مُوڈ (طبیعت)کے مطابق اونچی آوازاور کبھی نرم آوازمیں ان سے گفتگو کرتے اور قہقہے لگاتے تھے۔ کم گواور دھیمی آوازمیں بولنے والا خیربخش کس طرح ان سے پیش آتے اور انہیں کس طرح ڈیل کرتے۔ یہ درویش النفس سردار خیربخش ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ (خیربخش کا کہنا ہے کہ میں نے غریبوں میں رہ کر خود کو ڈی کلاس کرنے کی بارہا کوشش کی مگر اس میں ناکام رہا) خیربخش مری کے یہ دوست جن میں میرسلطان خان بنگلزئی کو چھوڑ کر ایک بھی نوابزادہ یا سردارزادہ نہیں تھا سب عا م لوگ تھے۔ صرف مرغوں اور کتوں کے شوق تک ان کی دوستی محدودنہیں تھی بلکہ اس دوستی کو مزید وسعت دینے کے لئے خیربخش نے ان پر مشتمل گلی ڈنڈے کی دوٹیمیں تشکیل دیں ان سب کو اپنی گاڑی پک اپ میں بٹھا کر سبی سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ناڑی گاج(ندی) پل کے ساتھ کُھلے میدان میں گُلی ڈنڈا کھیلنے جاتے۔
خیربخش بھی کسی ایک ٹیم میں شامل ہوجاتے روز سہ پہر گلی ڈنڈا کھیلنے جاتے۔ ایک میٹر لمبے ڈنڈے اور آٹھ انچ کی گلی سے کھیلتے تھے۔مری کو بھی کئی میٹر گلی کے پیچھے دُور دُورتک رُلنا پڑتا تھا اور و ہ پسینے سے شرابور ہوجاتے۔
خیربخش جب کوئٹہ میں ہوتے تو یہاں پر بھی لڑاکا کتوں اور مرغوں کے شائقین ان کے اردگرد جمع ہوجاتے۔ اتوار والے دن ریچ یا چرغ کے ساتھ کتوں کو لڑایا جاتاتھا۔ خیربخش اپنی گاڑی میں بیٹھ کر تماشہ دیکھتے اور خوب مزے لوٹتے۔مری کے مرغوں کے نام اکثر فوجی ناموں (کرنل ؎؎؎؎؎؎،جنرل، میجر،بریگیڈیر) سے منسوب ہوتے تھے۔مرحوم سردار شوکت علی ترقی پسند خیالات کے حامل دانشور اور سیاستدان تھے اپنی کتاب ”کابل کا سفر“ میں لکھتے ہیں کہ کابل میں سردارخیربخش کے دعوت پر ہم ان کے ہاں کھانا کھانے گئے تو اس دوران خیربخش مرغوں کی نسلوں اور ان کے لڑنے کے ہنر پر اتنا بولتے رہے کہ دسترخوان پررکھے ڈو نگے میں مجھے مرغوں کی ٹانگیں آپس میں لڑتے ہوئے لگ رہی تھیں اور سردار صاحب ان مرغوں کے نام بھی بتاتے،جو کرنل،جنرل،میجراوربریگیڈیر کے ناموں سے منسوب تھے) دراصل مرحوم سردارشوکت علی خیربخش کو نہیں سمجھ سکے۔خیربخش اپنے بارے میں ان متوقع سوالات سے خود کو بچانا چاہتے تھے جو مرحوم سردارشوکت علی ان سے کرنا چاہتے تھے۔ جن کا جواب مری دینا نہیں چاہتے تھے۔ مثلاً لندن اور فرانس میں کن انٹرنیشنل تنظیموں سے آپ کی ملاقات ہوئی، کس نے کتنا رسپانس دیا، افغان حکومت آپ کی کیا مدد کررہی ہے، مستقبل کا کیا ارادہ ہے، اور کابل میں کب تک رہنے کا ارادہ ہے وغیر وغیرہ۔
1969ء میں سردار خیربخش مری نے پاکستان کی ترقی پسند قوم پرست سیکولر سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوکر باقاعدہ اپنی عملی سیاسی زندگی کا آغاز کردیا انہیں نیپ کی مرکزی مجلس عاملہ کا ممبر چُناگیا۔انوں نے 1970 ء میں چارسدہ کے ولی باغ میں نیپ کے مرکزی کنونشن میں مندوب کی حیثیت سے شرکت کی اور قومیتوں کے مسئلے پر نیپ کے آئین میں ترمیم کے وقت اختلاف کیا۔
28مارچ1970ء کو جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کردئیے سیاسی جماعتوں اور سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ختم کرکے اور عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ صوبے بحال ہونے کے بعد خیربخش مری نیپ بلوچستان کے صوبائی صدر بنا دئیے گئے۔ خیربخش نے خود کو نیپ میں شامل بائیں بازُو کے بلوچ پشتون روش خیال قوم دوست حلقے مرحوم قادر بخش نظامانی، عبداللہ جان جمالدینی، مرحوم لال بخش رند، مرحوم بابوعبدالحق محمد شہی، مرحوم صادق کاسی، مرحوم ملک عثمان کانسی، مرحو م ہاشم خان غلزئی اور مرحوم زمرد حسین کے قریب رکھا۔ خیربخش ساتھیوں کے صلاح مشورہ سے پارٹی کا اجلاس طلب کرتے اورخوداجلاس کی صدارت کرتے۔ انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مساوی اور جمہوری رویہ رکھا۔بقول ملک عثمان کانسی اجلاس کے دوران خیربخش خاموش رہتے۔ ممبران باہمی طورپر عوامی وپارٹی مسائل اور سیاست پر بحث اور فیصلے کرتے۔خیربخش ہمارے فیصلوں سے اتفاق کرتے اور کارروائی رجسٹر پر دستخط کرتے۔ خیربخش ہمیشہ اور ہروقت پارٹی کارکنوں میں گُھل مل جاتے اور ہروقت کارکنوں میں رہتے ان سے سیاسی مسائل پربحث ومباحثہ کرتے، عوام تک پارٹی پروگرام پہنچانے کے لئے عوامی رابطہ مہم چلاتے۔ اس نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو منظم کیا۔بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان مثالی اتحاد قائم کیا اور پارٹی کارکنوں کی دلجوئی کی خاطر ان کے ساتھ جوڈوکراٹے بھی کھیلتے رہے۔
پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کہتے ہیں کہ خیربخش کی شخصیت ان دنوں سیاسی کارکنوں کے لئے مقناطیسی قوت رکھتی تھی۔ ایک تو وہ نہایت خوبصورت تھے۔ ان کی گفتگو کا اندازنرم اورمسحورکُن تھا۔ ا ن دنوں انہیں کے بی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
ایک دفعہ جب وہ ہماری دکان (چلتن میڈیکل اسٹور) پرآئے تو میں ان کے قریب بیٹھ کر ایسا محسوس کررہا تھا کہ بس کسی ایسی شخصیت کے قریب ہوں جو مجھے اعلیٰ اور ارفع خیالات اور بلندی کی جانب لے جارہا ہے۔ یقین جانئیے کہ میں ان سے بے حد متاثر ہورہا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ خیربخش جب انگریزی فلم دیکھنے ریگل سنیما جاتے تو بعض دفعہ ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ ہم ان کے ساتھ گیلری میں بیٹھ کر فلم دیکھتے۔ فلم شروع ہونے سے قبل پردے پرپاکستانی پرچم لہرایا جاتا تھا۔ جس کے احترام میں سارا ہال اٹھ کھڑا ہوتا لیکن خیربخش اپنی نشست پر بیٹھے رہتے اس وقت ہمارے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ہم کیا کریں ان کا ساتھ دے کر اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہیں یا پرچم کے احترام میں کھڑے ہوں۔ لیکن ہم اکثر ان کا ساتھ دے کر اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہتے۔ خیربخش مری کی سیاسی بصیرت، ان کی دوراندیشی اور پُرکشش تقریروں کی وجہ سے انہیں عوام میں زبردست پذیرائی حاصل تھی ان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس وقت ہو اجب وہ1970ء کے انتخابات میں قومی وصوبائی دو حلقوں سے بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا حلقہ انتخاب ایرانی سرحد تفتان سے کوئٹہ، سبّی،نصیرآباد تک7سو میل پر پھیلا ہو اتھا۔ جہاں سے ایک لاکھ تیرہ ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ا سی طرح صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی2 کوئٹہ سے بھاری ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ70ء کے انتخابات میں انہوں نے صرف اسی مقصد کے تحت حصہ لیا کہ بلوچوں پر عملی طورپر یہ ثابت ہوسکے کہ پارلیمنٹ ان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
خیربخش مری اپنے انتخابی مہم کے دوران عوام کو واسطہ دے کر ووٹ کی بھیک نہیں مانگتے تھے بلکہ اپنے اندر کے خیربخش کے موقف اور ارادوں کا پرچار کرتے تھے۔ ان کے خیال میں عوام کو درست سمت دینے کا یہ ایک بہتر موقع ہے۔ جو انہیں میسرآیا ہے اس وقت و ہ صوبہ جاتی خودمختاری سے بڑھ کر قومی حق حاکمیت کی مانگ کرنے لگے تھے۔ وہ نوجوانوں میں ریڈیکل رہنما کے طور پر جانے پہچانے لگے تھے اپنی تقریروں کے دوران زیادہ دیرتک روانی سے بولتے تھے اور جو بولتے وہ پُرمغز اور فلسفیانہ گفتگو ہوتی۔
ان کی تقریروں سے سچّائی پھوٹتی تھی۔پارٹی دفتر واقعہ اینگل روڈ قاضی بلڈنگ آتے تو پارٹی کارکن اور نوجوان طلباء انہیں اپنے حصار میں لیتے۔ ان سے سوالات کرتے۔ خیربخش میڈیا اور تصویر بنوانے سے خود کو دُوررکھتے تھے۔ خیربخش سخت متحرک تھے اپنے سینے پر لینن اور ماؤ کا بیج لگایا کرتے تھے۔ پارٹی کے چیدہ چیدہ کارکنوں اور نوجوانوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے اسٹڈی سرکل لیتے تھے۔ ان کی ان سرگرمیوں سے عیاں ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے ایک مقصد پوشیدہ ہے۔
کوئٹہ میں نیپ کے زیراہتمام احتجاجی جلسوں کی قیادت کرتے۔ اپنے سیاسی رفیق سردار عطاء اللہ مینگل اور میرصاحب کے شانہ بشانہ نظرآتے تھے۔ ان دنوں پاکستا ن میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے طاقتور وزیراعظم تھے۔پیپلز پارٹی کی حکومت اور نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ ایک دن ریگل سنیما(موجودہ ریگل پلازہ) کے سامنے نیپ اور پی پی پی کے کارکنوں کے درمیان مخالفانہ نعرہ بازی ہوئی جو بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے پر پتھراؤ اور تصادم کی شکل اختیار کرگئی۔ اسی اثناء میں خیربخش بھی اتفاق سے وہاں پہنچ گئے اور صورت حال کا پتہ چلا کر دیگر سیاسی قائدین کی طرح دور کھڑے ہوکر نظارہ نہیں کیا بلکہ کارکنوں کی لڑائی میں شامل ہوگئے۔ کارکنوں کے منع کرنے کے باوجود مخالفین پرسنگ باری کرتے رہے اس دوطرفہ سنگ باری میں ان کو کہیں سے بھی کوئی پتھر آکرلگ سکتا تھا۔ لیکن انہیں اس کی قطعاً پروا نہیں تھی۔ خیربخش دشمن کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اور دوست کو دوست کی نظر سے۔(ان کا کہنا ہے کہ دشمن چھپ کر آتا ہے کبھی نام بدل کر اور کبھی بھوت بن کر بھی آتا ہے) کے بی اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے سخت جان لڑاکا مرغوں کے لئے بھی وقت نکالتے تھے اور شام کے وقت بروس (موجودہ جناح) روڈ پر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے رفیق صادق کاسی کے ساتھ گھنٹوں گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے تھے۔ جب تک وہ اپنی گفتگو ختم کرکے گھر نہیں جاتے خفیہ اہلکار ان کی نگرانی کرتے۔
1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان میں نیپ اور جمعیت کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ کافی لیت ولعل کے بعد بالآخر یکم مئی1972میں سردار عطا اللہ مینگل کی قیادت میں بلوچستان میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر سردار مری ذاتی طورپر عطااللہ مینگل کے حکومت بنانے سے ناخوش تھے۔ اس لئے انہوں نے وزارت میں جانے سے پارٹی کی صدارت کو ترجیح دی۔1973ء کے آئین کا مسودہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاس ہوا تو خیربخش مری نے قومی اور حق حاکمیت کے مسئلے پر 73ء کے آئین پر دستخط نہیں کئے اور اپنے رشتہ دار رُکن قومی اسمبلی جنیفر موسیٰ اوررکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو بھی آئین پر دستخط کرنے سے منع کیا۔ بھٹو رجیم نے بے شمار الزامات لگا کرنو(9) ماہ بعد13فروری1973ء کو مینگل کی مخلوط حکومت کو برطرف کردیا اور بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ کرکے نواب اکبرخان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کردیا۔ بھٹو کے اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی نے تحریک چلائی، احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔ شہری لڑائی نے پہاڑوں کا رُخ کرلیا۔ اس موقع پر خیربخش نے کہا کہ میں بھٹو ٹولے پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دشمن کو بلوچستان کے پہاڑوں میں دفن کردیں گے۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے قومی، سیاسی اور جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا اور آخری فتح تک بلوچستان کے ایک ایک انچ کی حفاظت کے لئے لڑیں گے۔ بلوچستان میں فوج تعینات کرکے ٹکا، بھٹو اور قیوم ٹولہ خوفناک نتائج سے نہیں بچ سکیں گے۔ بلوچستان چاربرس تک آگ اور خون میں جلتا رہا۔ بلوچو ں اور پاکستانی فوج کے درمیان اس معرکہ آرائی میں مری بلوچوں نے باقاعدہ زیرزمین تنظیم(B.P.L.F)بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ کے تحت منظم لڑائی لڑی۔زیادہ تکالیف ومشکلات کا سامنا کیا۔ قربان ہوئے۔ جس سائنٹفک حکمت عملی سے اپنی لڑائی لڑی، مدمقابل فریق کو اس کا اندازہ ہوگیا کہ اس کی لڑائی سروں پر پگڑی باندھنے اورچہرے پر لمبی داڑھی رکھنے والوں سے نہیں بلکہ ان کے پیچھے چُھپے ایک ذہن سے ہے۔ بلوچستان کی صورتحال اور بھٹو کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے پاکستان نیشنل الائنس (P.N.A)قائم کیا۔ نیپ جو اس وقت حکومت کے زیرعتاب تھی، پی این اے میں شامل ہوئی۔ پی این اے پاکستان کی جاگیرداروں، صنعت کاروں، مذہبی جماعتوں، علماء اور ریٹائرڈ فوجی افسروں کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل بھٹو کے خلاف ایک اتحا دتھا۔ جسے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی آشیرآباد حاصل تھی مقصد یہ تھا کہ بلوچستان میں جاری مسلح مزاحمتی تحریک جس کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے تھے۔ اسے کسی نہ کسی طرح سے سبوتاژ کیا جاسکے۔ پی این اے کی تحریک کا فوکس عطااللہ مینگل کی حکومت کی بحالی نہیں بلکہ بلوچستان تھا۔ پی این اے نے پاکستان گیر پیمانے پر جلسے اور احتجاجوں کے سلسلوں کا آغاز کردیا۔ پی این اے کی تحریک پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ تک جاری رہی۔ کوئٹہ میں پی این اے کا جلسہ لیاقت پارک میں ہوا۔ جس میں مرحوم ولی خان، مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان، مرحوم میاں طفیل، پروفیسر غفوراحمد، مرحوم غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، مرحوم مولانا مفتی محمود اور حزب اختلاف کے دیگر رہنما شریک ہوئے۔خیر بخش مری نے جلسہ کی سیکورٹی کا انتظام خود سنبھالا۔ کے بی اپنی لینڈ کروزر جیپ جس کے چاروں اطراف میں لوہے کی حفاظتی جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ اپنے دوبیٹوں ا ور دومحافظوں جو ہتھیار بند تھے جیپ کے پچھلے حصے میں بٹھا کر خود ڈرائیونگ کرکے جلسہ گاہ کے گرد چکرلگا تے رہے۔ جلسہ کے دوران بلوچ ورنا کے چیئرمین قطب خان لہڑی نے اپنے چار مسلح ساتھیوں کے ساتھ کارمیں قندھاری بازارکی جانب سے تیز رفتاری سے جلسہ گاہ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔لیکن خیربخش انہیں دیکھتے ہی تیزی سے ان کی جانب بڑھے۔ قطب خان لہڑی خیربخش کی گاڑی اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر زرغون روڈ کے راستے سیدھے گورنرہاؤس میں داخل ہوگئے۔ کے بی نے گورنر ہاؤس تک ا ن کا پیچھا کیا۔
14جولائی 1973کو کے بی نے سبّی کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کیا اور دوقومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے قومیتوں کی بنیا دپرصوبوں کی ازسرِ نو تشکیل پرزوردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی علیحدہ ثقافت، تہذیب، زبان اور تاریخ رکھتے ہیں۔
31جولائی1973کو ایوب (موجودہ نواب نوروزخان) اسٹیڈیم کوئٹہ میں پی۔ این اے کی صوبائی قیادت کا احتجاجی جلسہ ہوا۔ جلسہ سے سردار خیربخش مری نے بھی خطاب کیا ان کی تقریر اتنی سخت تھی کہ پی این اے کے مولوی تقریر کے دوران بار بار کھڑے ہوکر اسلام زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ خیربخش کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک علیحدہ ریاست (ملک)تھا نہ کہ پاکستان کا حصہ۔انہوں نے حکومت کو تنبہہ کی کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی سے بازآجائے دوسری صورت میں عوام حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے بھٹو کو ہٹلر سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو سُرخ جھنڈے کے مقابلے میں سرخ جھنڈا کھڑا کرکے دلالی کا کام کررہے ہیں۔انہوں نے بلوچستان کے پشتونوں سے گلہ کیا کہ آپ کیسے بھائی ہیں ہم لڑرہے ہیں گھاس کھا رہے ہیں آپ اپنے کاروبار کو چمکا رہے ہیں۔ اس دوران نیپ کی خاتون ممبر اسمبلی مس فضیلہ عالیانی جس نے پارٹی کی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے سینٹ کے انتخابات کے موقعہ پر اپنے بھائی چنگیز عالیانی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا تھا۔ اس کے ردعمل میں کے بی نے مس فضیلہ عالیانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا، گائے گھاس تو ادھر کھائے اور دودھ کہیں اور جاکر دے۔ انہوں نے فضیلہ عالیانی کی دورہ امریکہ کی سرکاری دعوت قبول کرنے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ (خیربخش اصول پرست سیاست کے قائل ہیں اور انہی خدشات کے پیش نظر وہ کہتے ہیں کہ میں پارلیمنٹ کے خلاف نہیں ہوں۔لیکن لوگ اپنے اصولوں پرنہیں ٹھہرتے اور ہم انہیں روک بھی نہیں سکتے)
بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابند ی لگا کر اس کے دفاتر سربمہر کردئیے اورنیپ کی قیادت پر ملک دشمن، علیحدگی پسند، مملکت پاکستان کے خلاف کام کرنے، گریٹربلوچستان اور آزاد پختونستان کے نام سے آزادریاستیں قائم کرنے کے سنگین الزامات لگا کرنیپ کی مرکزی وصوبائی قیادت سمیت ہزاروں کی تعدادمیں پارٹی کارکنوں اور طلباء کو گرفتار کرلیا۔ حتیٰ کہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو ووٹ دینے والے عام شہریوں کو بھی پکڑ کر ان سے پوچھ گُچھ کی گئی۔ نیپ کی قیادت کے خلاف حیدرآباد سازش کیس قائم کیا جس کے تحت خصوصی ٹریبونل کی عدالت میں ا ن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔
خیربخش کو چارسال تک حیدرآباد جیل میں خصوصی ٹریبونل کے سامنے شدید الزامات اور سوال وجواب کا سامنا رہا۔ ا ن کا کہنا تھا کہ فورتھ انٹرنیشنلسٹ کمیونسٹ، ملحد، ملک دشمن، غدار، ہٹ دھرم اور انتہا پسند ایسے کتنے الزامات ہیں جن سے میری ذات آلودہے۔ کتنی مکروہ اور مضحکہ خیز کہانیاں ہیں جن کا میں مرکز ہوں۔ جب میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھ پر حیرت اور کرب کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود میں عوامی حقوق کی خاطر ہرآزمائش سے گزرنے کے لئے تیارہوں۔
جیل میں اپنے ساتھیوں کی جانب سے بھی انہیں سخت دباؤ کا سامنا رہا۔ بالخصوص پارٹی کے سربراہ ولی خان کی طرف سے باربار یہ سوال اُٹھایا جاتا رہا کہ نیپ ایک جمہوریت پسند سیاسی جماعت ہے جس کا آئین اور پروگرام ہے جو پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کے تاریخی، ثقافتی، لسانی، آئینی اور جمہوری حقوق کے لئے کوشاں ہے۔ جبکہ بلوچستان میں نیپ کے نام پر مسلح مزاحمت ہورہی ہے۔ نیپ کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے،یہ لڑائی بھٹو کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن کے بی نے مزاحمتی عمل کا دفاع کیا(ان کا کہنا تھا کہ دشمن دشمن ہوتا ہے۔ دشمن کے ساتھ ہر محاذ پر لڑو سیاست کا ایک زاویہ درست نہیں ہوتا)
میرغوث بخش بزنجو بھی ان کے اس عمل سے نالاں تھے اور باقاعدہ اس کی مخالفت کرتے تھے۔ اور یہیں سے ولی خان اور بزنجو کے ساتھ ان کے اختلافات کی ابتداء ہوئی۔ خیربخش آپس کے اختلافات کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے ساتھیوں سے مل کر کئی دنوں تک بحث کی مگر مجھے رسپانس نہیں دیا گیا۔ وہ خیربخش اور ان کے حامیوں کو لے کر ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے گلہ کیا کہ جیل میں میرصاحب سے ایرانی پارلیمنٹ کے رکن حاجی کریم بخش سعیدی اور کراچی کے محمودہارون خصوصی اہتمام کے ساتھ گھنٹوں ملاقاتیں کرتے رہے۔ یہ ملاقاتیں بلوچستان کے ایک اسیر رہنما سے کرنا رازونیاز کی غمازی کرتی ہیں۔ میرصاحب کے بیانات جیل سے نکل کر محمود عزیز کرد اور ان کے توسط سے شائع ہوتے ہیں۔ رہائی کا منصوبہ کیسے تیار ہوتاہے۔ ہمیں مکمل طورپر لاعلم رکھا جاتا ہے۔ میرصاحب اور ولی خان کے بلوچ رہنماؤں کی فہرست میں میرا نام نہیں ہے۔ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور اب جبکہ نیپ کالعدم ہوچکی ہے اور میرے ساتھی کسی تنظیم میں شامل نہیں ہیں۔
شیربازمزاری اور احمد نوازبگٹی نے اپنے مطلب کے بیانات دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
شیربازمزاری اور اس گروہ کے دیگر عناصر مجھے بدنام کرنے کی منظم مہم چلارہے ہیں۔
5جولائی1977ء کو جنرل ضیاالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر پاکستان میں فوجی مارشل لاء لگا دیا اور خوداقتدار پر قابض ہوگئے اور بلوچوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرکے نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت پر ملک توڑنے کے سارے الزامات سے دستبردارہونے کا اعلان کیا اور حیدرآباد سازش کیس ختم کرکے ٹریبونل توڑ کر نیپ کی قیادت کو غیرمشروط طورپررہا کردیا اور بلوچستان میں جاری چارسالہ طویل فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
حیدرآباد سینٹرل جیل سے نیپ کی لیڈرشپ جب رہا ہورہی تھی تو اس موقع پر پارٹی کے قائد ولی خان نے کہا کہ حکومت سب کو رہا کرنے کے لئے تیارہے سوائے خیربخش مری کے۔ یہ بات ولی خان نے اپنے دورہ جنرل ہیڈ کوارٹر(GHQ)سے واپس حیدرآباد جیل آنے پر اپنے رہائی پانے والے دوستوں کو بتائی۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ جیل سے صرف خیربخش کی لاش ہی جاسکتی ہے۔ جب اس بات کا انکشاف ہواتو نیپ کی قیادت نے اس وقت تک رہائی سے انکار کیا جب تک خیربخش ان کے ساتھ رہا نہیں ہوجاتے۔ جب میرغوث بخش اور سردار مری رہائی کے بعد بولان میل کی ایک ہی بوگی میں حیدرآباد جیل سے سفرکرکے کوئٹہ آئے تو اس وقت تک بلوچ عوام ان کے اختلافات سے لاعلم تھے اور جب کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پرریل کی بوگی سے باہرنکلے تومیرغوث بخش بزنجو اور مرحوم میرگل خان نصیر کو ان کے حامی جلوس کی شکل میں ریلوے سوسائٹی مینگل ہاؤس لے گئے۔ جبکہ بلوچ طلباBSOاور پرجوش کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ریڈیکل بلوچ رہنما سردار خیربخش مری اور شیرمحمد مری کو لے کر کوئٹہ کی اہم شاہراؤں پرگشت کرتی ہوئی BSOکے دفتر کے سامنے جمع ہوگئی جہاں دفتر کی چھت پر کھڑے ہوکر خطاب کرتے ہوئے کے بی نے کہا کہ وہ چارسال بعد جیل سے باہرآئے ہیں اور اب حالات کا جائزہ لیں گے اور حالات سے واقف ہونے کے لئے عوام اور ساتھیوں سے ملیں گے۔ جس کے بعد یہ طے کریں گے کہ سیاست میں کیا رویہ اختیارکریں، چاربرس کی سیاست میں تبدیلیاں آئی ہے۔ اس موقعہ پر زیادہ بات نہیں کرسکتا۔ ان چارسالوں کے دوران کچھ نئے تضادات ابھر ے ہیں جن پر بات کرنے سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے عوام اور طلباء کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ان کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ تھا۔بعدمیں جلوس ارباب کرم خان روڈ پر مری ہاؤس جاکر منتشر ہوگیا۔کئی دنوں تک مری ہاؤس میں سیاسی رہنماؤں، کارکنوں، میرومعتبرین اور عوام کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
قید سے رہائی کے بعد خیربخش کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے نہ اپنی سیاسی جماعت بنائی۔وہ ایک روشن خیال مفکر ہیں۔سیاسی حالات کا ادراک رکھتے تھے۔ اپنے کاز کے ساتھ پُرعزم تھے۔ اس لئے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے کوئٹہ میں عبدالستار روڈ پر فیصل ہاسٹل میں بلوچ طلباء سے اسٹڈی سرکل لینے لگے اور سیاسی کارکنوں کو اپنے قریب رکھا۔
1977ء میں خان عبدالولی خان نے مینگل ہاؤس کوئٹہ میں خیربخش مری سے ملاقات کی اور انہیں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ مگر خیربخش نے این ڈی پی میں شمولیت کرنے سے معذرت کی کیونکہ وہ این ڈی پی کو دوسرا جال سمجھتے تھے۔ فروری1978ء کو سردار عطااللہ مینگل نے کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے کارکنوں کا کنونشن مینگل ہاؤس کوئٹہ میں طلب کیا۔ جس میں سردارمری نے بھی شرکت کی۔مری نے اس موقع پر سخت جذباتی تقریر کی اور اعلان کیا کہ وہ آخردم تک بلوچ حقوق کے لئے لڑتے رہیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو اس بار وہ خود بندوق اُٹھا کر پہاڑوں کا رُخ کریں گے۔ انہوں نے اس موقع پر بلوچوں کی سیاسی انقلابی پارٹی کے قیا م کے لئے زور دیا۔ ان دنوں خیربخش کو بلوچ عوام میں قبائلی سردار کی حیثیت سے زیادہ بے مثال سیاسی مقبولیت حاصل تھی۔ اس لئے بلوچ سیاسی کارکُن کے بی کو ایک انقلابی رہنما کے طورپردیکھتے تھے۔ ان کے خیال میں بلوچ قیادت میں کے بی ہی وہ واحد رہنما ہیں جو عمل کے غازی ہیں جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ اپنے قول فعل میں ہم آہنگی کے پیکر ہیں۔ ان کی جرأت، بہادری سے کارکنوں اور نوجوانوں کو حوصلہ ملتا ہے۔ رہنمائی کی ساری خصوصیات ان میں موجود ہیں۔اپنی ان صلاحیتوں کے باعث قوم کی قیادت کے لائق ہیں۔ اس نے بلوچ نیشنلزم کو سائنسی فکر دی اور فکر کو عمل میں لے گئے۔ کارکن انہیں بلوچستان کی قومی سیاست کا محور اور بلوچ عوام کا مسیحا سمجھتے تھے۔ کیونکہ کے بی ایک باصول سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک باصلاحیت گوریلا کمانڈر بھی ہیں۔ کے بی کے کردارپر جہاں سیاسی کارکنوں کی یہ ذہنی کیفیت تھی وہاں ان کے ناقدین کو یہ اعتراض تھا کہ خیربخش قید سے رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں نظرنہیں آتے۔ سیاست کے بدلتے حالات میں ان کا موقف سامنے نہیں آرہا ہے۔ عملی سیاست سے تھک گئے ہیں۔ اب ان کا سب سے بڑا مشغلہ مُرغ لڑانا رہ گیا ہے۔
دراصل کے بی قید سے رہائی کے بعد پاکستان کی سیاست سے مایوس ہوچکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک طبقہ چھوٹی قوموں کو سیاست میں حصہ لینے سے روکتا ہے ا س لئے میں وقتی طورپر سیاست سے کنارہ کش ہورہا ہوں۔ بلوچستان سے باہر جانے سے چند روزقبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مری نے کہا کہ میں آئندہ پاکستان کی بے اصول سیاست کا حصہ نہیں بنو ں گا۔ اس کے بعد آپ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لندن، فرانس او ر پھرافغانستان چلے گئے۔ خیربخش کے تیوربدلے بدلے سے تھے اب وہ بلوچ اور بلوچستان کے لئے دوسرے راستے کا انتخاب کرچکے تھے۔ سردار مری نوری نصیر خان کے بلوچستان یعنی صرف بلوچ وطن کی با ت کرنے لگے اور یہ کہ بلوچ چاہے جہاں ہو بلوچستان ہی اس کا اصل وطن ہے اور برابری کا حقدار ہے۔ سردار مری قلات اسٹیٹ کے ایوان بالا اور ایوانِ زیریں میں 1947ء کو پاس کی گئی قراردادوں کو اہمیت دیتے تھے اور بلوچ قومی بقاء کی تحریک کو شہید خان محراب خان کی شہادت سے جوڑتے ہیں۔ ان کے قول وفعل میں صرف بلوچیت ہی رچ بس چکی ہے۔ اس سوچ وفکر کے حامل خیربخش پاکستانی حاکموں کی نظروں میں انتہائی خوفناک دہشت گرد، ملک دشمن اور کمیونسٹ ٹھہرے(قبضہ گیر سامراجی طاقتوں نے اپنی قبضہ گیری کے خلاف آوازاُٹھانے والے عوامی ہیروز کو ہمیشہ ایسے ہی القابات سے نوازہ ہے) خیربخش پاکستانی حاکموں کی فطرت کا ادراک رکھتے تھے کہ پاکستانی حاکموں کو بلوچوں کی نہیں بلکہ بلوچ سرزمین کی ضرورت ہے جو تاحیات ان کی معاشی واقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیتوں سے بھرپور اور پُرکشش ہے۔ یہ بلوچو ں کی نسل کشی تک بھی جاسکتے ہیں۔ لیکن ان کے ہمسفر ساتھی اس ادراک سے عاری تھے یا مصلحتاًاس عمل کی طرف مائل تھے جو درمیانی یا مبہم راستہ قراردیا جاتا ہے۔ اس عرصہ میں بالادست حکمران قوتوں نے 1973ء کی چارسالہ جنگ کے تجربہ کی روشنی میں بلوچستان میں مستقبل کی اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی جس کے تحت بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی گہما گہمی، اقتدار اور پارلیمنٹ کا فریب دے کر آسانی سے بلوچستان کی بلوچ آبادی والے علاقوں میں شہروں کے قریب عسکری قلعے قائم کرلئے۔ جگہ جگہ FC کی چیک پوسٹیں قائم کیں، سارے بلوچستان میں تھانوں کا جال پھیلا کر پولیس اور لیویز کی نفری میں ا ضافہ کردیاگیا۔ سولہ نئے ایئرپورٹ، سینکڑوں ہیلی پیڈز، سبی، خضدار اور مکران میں نئی چھاؤنیاں تعمیر کیں اور خفیہ ایجنسیوں اور مخبروں میں مقامی آبادی سے بھرتیاں کرکے انہیں بلوچ علاقوں میں پھیلا دیا گیا۔ اس طرح بلوچستان کو اپنے شکنجے میں لے لیاگیا۔ واحد رہنما خیربخش تھے جن کی بلوچستان کے حالات کے پس منظروپیش منظر پرگہری نظرتھی، دشمن کے منصوبوں کے مقابلے میں جو حکمت عملی اس نے ترتیب دی آج سب کے سامنے ہے۔
خیربخش اپنے اصولوں پرقائم رہتے ہوئے تاآخری سانس پاکستانی سیاست کا حصہ نہیں بنے۔ نواب نوروز خان کے بعد سردار خیربخش وہ دوسرے سردار ہیں جو اپنے اصولوں پرکاربند ہیں۔ نوروزخان روایتی تھے جبکہ خیربخش انقلابی فکری اصول پرست۔
70ء کی دہائی میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں مری قبیلے کی ایک بڑی تعدادنے افغانستان ہجرت کی تھی۔ کے بی لندن سے فرانس چلے گئے اور پھر1982ء میں افغانستان آئے اور اپنے قبیلے اور تنظیم کے ساتھیوں سمیت بارہ برس تک افغانستان میں رہے۔(ان دنوں افغانستان میں ڈاکٹرنجیب کی حکومت تھی)جہاں بابو شیرمحمد اور میرہزارخان بجارانی مری کے خیربخش کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ بی پی ایل ایف کا تنظیمی ڈھانچہ منتشر ہوچکا تھا۔ لندن گرو پ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ بدلتے حالات نے خیربخش کو شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ اس نے تنظیمی کام کاازسرِ نو جائزہ لیا اور تنظیم نوپر جت گئے۔ لیکن افغانستان کے ناموافق سیاسی حالات نے ساتھ نہیں دیا۔ وہاں ردانقلابی سامراجی قوتیں اپنے مقامی گماشتوں کی معاونت سے انقلاب کو کچلنے کی سازشوں میں مصروف تھیں اور صورتحال سخت خراب ہونے کی وجہ سے تنظیمی کام میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ بابوشیرمحمد مری اور میرہزار خان مری کی سرپرستی میں قبیلے (تنظیم) کا ایک دھڑا الگ ہوگیا۔ لیکن کے بی ان حالات سے مایوس نہیں ہوئے اور اپنے کام کو حالات کے ساتھ ساتھ جاری رکھا۔ ان کی سرگرمیوں پرISIکی کڑی نظرتھی۔ISIنے ایک خفیہ منصوبہ کے تحت خیربخش کو راستے سے ہٹانے کی مذموم سازش تیارکی اور اس پر عمل درآمد کے لئے ان کے اپنے قبیلے کے لوگوں اور چند دیگر افراد کے ذریعے خیربخش کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے ان کے کیمپ کی طرف مارچ کیا۔ لیکن افغان انٹیلی جنس اور ان کی تنظیم کے سپاہیوں نے بروقت مشترکہ کارروائی کرکے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ افغان مجاہدین جوISIکی سرپرستی میں افغان انقلاب کو ناکام بنانے اور بالآخر اس کے خاتمے کے لئے لڑرہے تھے۔ سوویت یونین کی افواج کی افغانستان سے انخلاء کے کچھ عرصہ بعد افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا(کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں حالات کی خرابی کے کارن ڈاکٹرنجیب نے ان کو پیغام بھیجا کہ میری حکومت تحلیل ہونے والی آپ کسی طرح اپنے وطن چلے جائیں، جواب میں خیربخش نے کہا کہ جب ہم مصیبت میں تھے تو آپ نے ہمارا ساتھ دیا اور اب آپ مصیبت میں ہیں تو ہم آپ کو کیسے چھوڑ کرجاسکتے ہیں) اور ان کی جگہ مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی۔ مجاہدین نے کے بی اور اس کے قبیلے کے افراد کو کابل چھوڑنے کے لئے مجبورکیا۔ مجاہدین خیربخش کی رہائش گاہ کے باہر کھڑے ہوکر دروازے پر دستک دینے لگے اور ان سے کہا کہ تمہارے جسموں کے کپڑے اور پیروں کے جوتوں کے سوا اس سرزمین پر تمہارا کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ چھوڑ کر جتنی جلدی ممکن ہوسکے افغانستان سے نکل جاؤ۔ان حالات میں کے بی اور ا ن کے قبیلے کا افغانستان میں مزید قیام کرنا کسی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ خیربخش کی زندگی خطرے میں تھی۔ خیربخش اور ان کے ساتھیوں کی سلامتی کے بارے میں بلوچ عوام میں سخت تشویش بڑھ گئی۔ نواب بگٹی صورتحال کو سمجھ گئے، فوری طورپر قوم پرست سیاسی جماعتوں اور BSOکے نوجوانوں کو متحد کیا۔ سردارمری اور ان کے قبیلے کی بحفاظت واپسی کے لئے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ مظاہرے کئے اور ان کی بحفاظت واپسی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالا۔ آخر کار حکومت پاکستان اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہوئی اور 26وزراء اور سیاستدانوں پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا اور C-130جہازمیں کابل روانہ کردیا۔ کابل میں حالات اتنے خراب تھے کہ پاکستانی سفارت خانہ کے سیکنڈ سیکریٹری خود گاڑی لے کر شیرمحمد مری کی رہائش گاہ پرپہنچ گئے اور شیرمحمد مری کو بحفاظت وہاں سے نکال کر ہوائی اڈے پہنچادیا۔ خیربخش مری کی وطن واپسی ومراجعت بھی انہی حالات میں ہوئی۔ جس دن خیربخش کی واپسی طے تھی۔اسی دن مجاہدین نے مری اور ان کے ساتھ مقیم افراد کو ذاتی استعمال کے کپڑے اور جوتوں کے سواکوئی چیز ساتھ لے جانے سے منع کیا۔ حالات اس قدر خراب تھے کہ مجاہدین ان کے نیچے بچھی ہوئی دریاں بھی کھینچ رہے تھے۔ جرگہ کے اراکین فضائیہ کےC-130طیارے کے ذریعے کابل پہنچے طویل مذاکرات کے بعد خیربخش کے ساتھ سات گاڑیاں مجاہدین سے لے کر پاکستانی سفارتخانے کی تحویل میں دے دی گئیں باقی سارا سامان مجاہدین کے قبضے میں چلاگیا۔ صرف چند مُرغے ساتھ لے جانے کی اجازت دی گئی۔ مری کے لوگ بڑی مشکل سے چند لڑاکا مُرغے اور معمولی سامان اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے۔ مگرراستے میں جلال آباد کے مقام پر بعض افغانیوں نے اس قافلے کو لوٹ لیا اور ان کی گاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔ اس موقعہ پر جلال آباد کے گورنر نے بڑی مشکل سے ان کی گاڑیاں وہاں سے کراس کرائیں۔ کہا جاتا ہے کہ13 برسوں تک مختلف حکومتوں نے اپنے ذرائع سے مری کو پاکستان واپس لانے کی کوششیں کیں۔ لیکن کے بی مسلسل انکارکرتے رہے۔ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کے فوراً پاکستانی سفارتی ذرائع نے ان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں پاکستان واپس آنے کے لئے کہا۔ لیکن مری آمادہ نہیں ہوئے۔ تاہم آخری بارجب بلوچوں پرمشتمل جرگہ انہیں لانے کابل پہنچا تو خیربخش واپسی کے لئے آمادہ ہوئے۔ اس طرح سردار خیربخش بمعہ اپنے اہلخانہ کے پاکستانی فضائیہ کےC-130طیارے میں 16جون1992ء کو کابل سے کوئٹہ ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے۔ لیکن کوئٹہ ائیرپورٹ پرزبردست ہجوم اور نظم ونسق میں خلل کے باعث ان کا طیارہ ائیرپورٹ پراُترنہیں سکا اور واپس اسلام آباد چلا گیا۔ کے بی اسلام آباد میں قیام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں اس بات کے لئے آمادہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں موجود بلوچستان ہاؤس بھی بلوچستان کا حصہ ہے جس پر وہ آمادہ ہوئے اور ایک شب بلوچستان ہاؤس میں قیام کیا۔17جون بروز منگل ان کا طیارہ اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچا۔ ان کا طیارہ جب کوئٹہ ائیرپورٹ پر اُترا تو فضاء بلوچستان زندہ باد، خیربخش زندہ بادکے نعروں سے گونج اُٹھی۔اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قابو نوجوانوں نے ائیرپورٹ پسنجر لاؤنج کے شیشے توڑ ڈالے جب خیربخش ائیرپورٹ سے باہرآئے تو باہر کھڑے ہزاروں کی تعدادمیں موجود عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ کے بی70ء کے خیربخش نہیں لگ رہے تھے۔
سراور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ داڑھی کافی بڑھ چکی تھی، کمرمیں تکلیف کے باعث لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے۔ ہزاروں گاڑیوں میں 35ہزار افراد کا پُرجوش جلوس کئی گھنٹے مسافت کے بعد رات 9بجے ان کی رہائش گاہ واقع ارباب کرم خان روڈ پر پہنچا،راستے میں جگہ جگہ ان پر گل پاشی کی گئی۔ لوگوں کے اصرار پر خیربخش نے لینڈ کروزر گاڑی کے سن روف سے اپنے مختصر خطاب میں پُرجوش استقبال کرنے پر عوا م کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کا پیار اور خلوص دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ یہ بلوچ عوام کا اپنے وطن سے محبت اور عقیدے کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس فکرمیں تھا کہ ہم سے جو کمزوریاں ہوئیں ہیں اور ناکام، بے مقصد ہوکر لوٹے ہیں۔ عوام ہمارا احتساب کریں گے، ہمیں کٹہرے میں کھڑا کر ہم سے حساب کتاب کا تقاضہ کریں گے اور گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے ہمارا استقبال کریں گے۔ اس موقع پر ان کے حق میں زبردست نعرہ بازی ہوئی۔ ان کی رہائش گاہ سے سریاب روڈ (بلوچستان چوک) پر ایک کلومیٹر تک میلے کا سماں تھا جو ہفتہ بھر جاری رہا۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب سے ان کے عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کا ایک ماہ تک ان کی رہائش گاہ پرتانتا بندھا رہا۔ کے بی کو اپنے ان جانثار ساتھیوں کی بھی فکرتھی جو سینکڑوں کی تعدادمیں افغانستان کی بلوچ آبادی والے علاقوں ہلمند اور لشکرگاہ سے براستہ نوشکی بلوچستان کے سرحدی علاقہ سرلٹّ کے مقام پر جمع ہورہے تھے۔ اس دوران خیربخش اور حکومت کے درمیان تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب ریاستی فورسز نے انہیں بلوچستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ خیربخش، سردار عطاا للہ مینگل کو ساتھ لے کر نوشکی چلے گئے۔ حکومت کا اصرارتھا کہ افغانستان سے آنے والے اپنے ساتھ لایا ہوا اسلحہ اور سازوسامان حکومت کے حوالے کریں اور پھر سرحد عبورکریں۔ کے بی نے ہتھیار جمع کرانے سے انکار کیا۔ حکومت اور خیربخش کے درمیان یہ تکرار طول پکڑتی گئی۔ ایف سی اور لیویز نے سارے علاقے کو گھیرلیا۔ کے بی نے اپنے ساتھیوں سے اسلحہ نذرآتش کرنے کے لئے کہا اس طرح سارا اسلحہ جلا دیا گیا۔خیربخش جب افغانستان سے آئے تو بلوچستان کے سیاسی حالات نے ان کے لئے مُرغوں کی لڑائی کے میلوں میں شرکت کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔ اب ان کا شوق صرف شوق رہ گیا تھا۔ اب اس فلسفے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان پر تنظیمی کام کا بوجھ کافی بڑھ چکا تھا۔ اپنا سارا وقت سیاسی سرگرمیوں میں دینے لگے۔ جو تنظیمی کام افغانستان میں ادھورا چھوڑ آئے تھے اس کی تکمیل کی فکرمیں تھے اس نے بدلتے حالات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے افغانستان سے آنے والے قبیلے(تنظیم) کے افراد میں کچھ کو کوئٹہ شہر کے مغرب کوہ چلتن کے دامن میں آباد کیا۔ قبیلے کو کوہستان مری سے نکال کر بلوچستان کے مختلف شہروں میں پھیلا دیا تاکہ وہ بلوچستان سے واقف ہونے کے ساتھ دیگر بلوچ قبائل کے ساتھ بھی قربت پیداکرسکیں۔ جس کے مستقبل میں قومی تحریک پرمثبت اثرات مرتب ہوسکیں گے۔ اس نے تحریک کو ایک نئی جہت دینے کے لئے نئے لوگوں کو رابطے میں رکھا۔ خاص طورسے نوجوانوں کو ترجیح دی۔ اپنی رہائش گاہ کے سامنے والے خالی پلاٹ پر روز سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کے اجتماعات کرکے جمہوریت، نیشنلزم، مارکسزم سمیت سیاسیات اور دیگر موضوعات پر بحث ومباحثہ کرنے کا اہتمام کرتے۔ جس میں وہ خود بھی حصہ لیتے تھے۔ اور کئی ہفتوں تک اس مشق کو جاری رکھا۔ کوئٹہ کے سیاسی حلقے جو خیربخش کی سرگرمیوں پرنظر رکھتے تھے۔ طنزاً اسے خیربخش کا ”ہائیڈ پارک“ قرار دیتے تھے۔
ارباب کرم خان روڈ پر جب بھی کسی کا گزر کے بی کے گھر کے سامنے سے ہوتا تو کے بی چند نوجوانوں کے ساتھ سامنے پلاٹ کے درخت کے سائے تلے بیٹھے کتاب کے صفحات اُلٹتے پلٹتے نظرآتے۔ پھر اس نے اپنے اس طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ روزانہ اپنے گیراج نما اوطاق(بیٹھک) میں بیٹھ کر بلوچستان کے قومی تحریک کے نشیب فراز، ماضی، حال اور مستقبل کی سیاست اور نظریاتی امور کے متعلق اظہار خیال شروع کیااور جلد ہی اس نے ان نشستوں کو بلوچ ”حق توار“سرکل کا نام دے دیا۔ وہ خود بیٹھک کے دروازے کے ساتھ بیٹھتے اور ساتھیوں کو گدیلوں پر بٹھاتے۔ وہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے منشور اور پارٹی پروگراموں کا تحریری مواد اکٹھا کرکے ان میں درج نکات، قیادت کے کردار اور بلوچستان کے معروضات پربحث کرتے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ بلوچ حق توار کے نام سے ایک نیم سیاسی پلیٹ فارم بناکر عوامی رابطہ مہم چلا کر اس بات کا ”پٹّ و پول“ کریں کہ آج کا بلوچ اپنے حق حاکمیت اور اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اس نے حق توار کے توسط سے ایک تحریری پروگرام بھی مرتب کرنے کی کوشش کی جو پایہء تکمیل نہ تک نہ پہنچ سکی۔ بلوچ حق توار کے نشستوں کے دوران جب ایک ساتھی نے ان سے سوال کیا کہ بعض مقامی اخبارات میں آپ کی سیاست سے ریٹائرہونے کی خبرچھپی ہے تو اس پر سخت برہم ہوئے اور کہاکہ میں کوئی سرکاری ملازم ہوں جو ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی ہے۔ ان کا چہر ہ سرخ ہوگیا اور کہنے لگے کہ چند دن پہلے بھی کسی دوست نے مجھ سے یہی سوال کیا تھا خیال آیا کہ اس سے کہہ دوں کہ میں کسی کے باپ کا ملازم ہوں جو میں ریٹائرہوگیا ہوں۔ معنی خیز خاموشی کے بعد دھیمی آوازمیں کہنے لگے میری خاموشی کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ میں سیاست سے ریٹائرہوچکا ہوں۔ جب ان سے درخواست کی گئی کہ ”بلوچ حق توار“ کے اجتماعات میں بلوچستان کے محنت کشوں کی نمائندہ تنظیم بلوچستان لیبرفیڈریشن کے مطالبات پرمشتمل بینرز آویزاں کئے جائیں توا س پرانہوں نے برجستہ کہا کہ اگر بلوچ لیبرفیڈریشن نام کی مزدوروں کی کوئی تنظیم ہے تو اس کی اجازت ہے۔ اس نے انتہائی معصومیت کے ساتھ آہ بھرتے ہوئے کہا جہاں تک میری حدنگاہ ہے مجھے صرف بلوچ نظرآئے(خیربخش کے ان جملوں سے اپنے وطن اور بلوچ سماج کے بار

 

 

f  acebook.com/photo.php?fbid=129641558745640&set=a.103956281314168&type=3&theater

 

twitter
Youtube
Facebook