بلوچ عورت کی مزاحمت، مہناز سے ملک ناز تک


Image may contain: 1 person
·
بلوچ عورت کی مزاحمت، مہناز سے ملک ناز تک
شگر اللہ بلوچ
بلوچستان کے مسائل شاذ و نادر ہی ملکی میڈیا میں جگہ پاتے ہیں۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں براجمان ملکی سطح کئی نامور اینکرز، لکھاری، دانشور اور تجزیہ نگاروں کی معلومات بلوچ تاریخ اور سماج کے بارے میں انتہائی سطحی، مبالغہ آرائی اور مفروضوں کا مجموعہ ہیں۔ تربت کے ایک این جی او میں ملک کی نامور مصنفہ اور عورتوں کے حقوق کی علمبردار محترمہ ناہید کشور سے ایک دفعہ میری ملاقات ہوئی اور جب انہوں نے بلوچ خواتین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو مجھے ان کی معلومات پر تعجب کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔
نامور بلوچ سیاسی رہنماء، شاعر، محقق اور تاریخ نویس مرحوم میر گل خان نصیر اپنی کتاب ”بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی“ میں لکھتے ہیں کہ ”بلوچ تاریخ کی عظمت دراصل عورت کی مرہون منت ہے“ اس کتاب میں ایک اور جگہ مصنف رقم طراز ہے کہ ”بلوچ تاریخ میں مرد کی نسبت عورت زیادہ مضبوط اور باہمت نظر آتی ہے“ ۔ واقعی! جب 15 ویں صدی میں ہمایوں کی مدد کے لئے بلوچ تاریخی شخصیت چاکر اعظم اپنی لشکر کے ہمراہ دہلی پر حملہ آور ہوتا ہے تو (بلوچی رزمیہ شعری داستانوں کے مطابق) اس لشکر میں اس کی چھوٹی بہن بانڈی (نہ ڈرنے والی) بھی شامل ہوتی ہے۔
ایک نئے جوش و جذبے سے لشکر کو پھر سے حملہ آور ہونے کا حکم دیتا ہے۔ جب بلوچ لشکر لڑتے ہوئے پھر سے میدان جنگ میں پہنچتا ہے تو چاکر اور اس کے جنگجو ساتھی یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ بانڈی ہاتھ میں تلوار لئے اپنے دستے سمیت دلیری سے لڑ رہی ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر چاکر اعظم کی زیر قیادت دستے کو نیا ولولہ ملتا ہے اور بلوچ لشکر ہمایوں کی مدد کرنے میں سرخرو ہوجاتا ہے۔
ہم بلوچ مرد داڑھی پر ہاتھ پھیر کر اور مونچھوں کو تاؤ دے کر چاکر کی جس مردانہ کامیابی اور بہادری پر اتراتے ہیں، دراصل یہ بانڈی کی عظیم ہمت و دلیری کی پر چھائی ہے۔ اسی طرح بلوچ تاریخ میں چاکر اعظم کی چھوٹی بہو مہناز کی حقیقی کہانی مردانہ سماج کی خود غرضانہ اصولوں سے بغاوت اور بحیثیت عورت اپنی وجود اور وقار کو قائم رکھنے کی لازوال داستان ہے۔ جس میں مہناز جرگے کے میر و معتبرین کے سامنے اپنی کلائی سے چاندی کی تین چوڑیاں نکال کر اپنے شوہر شہداد کے آگے (بطور طلاق کی علامت اور طعنہ ) پھینک کر اس جواز پر طلاق کا مطالبہ کرتی ہے کہ ”جس مرد کو میرے کردار پر بھروسا نہیں اور جس نے مجھ پر ہاتھ اٹھا کر میری عزت نفس کو مجروح کیا ہے، یہ مرد (شہداد) بحیثیت شوہر اب مجھ پر ایسے ہی حرام ہے جس طرح ایک باپ اپنی بیٹی کے لئے، ایک بھائی اپنی بہن کے لئے اور ایک بیٹا اپنی ماں کے لئے (نکاح میں ) حرام ہے“ ۔
اس جرگہ میں نہ صرف مہناز طلاق لینے میں کامیاب ہوتی ہے، بلکہ انتقام کی یہ دیوی اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ جانے سے یہ کہہ کر انکار کرتی ہے کہ ”جب تک شہداد مر نہیں جاتا، میں اس کے نظروں کے سامنے رہوں گی“ ۔ وہ شہداد کے گدان (روایتی خیمہ نما مکان) کے سامنے خیمہ زن ہوتی ہے۔ شدت احساس گناہ اور پچھتاوے کی تپش سے پگھلتے شہداد کو ذہنی و جذباتی حوالے سے اذیتیں دے دے کر مرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مذکورہ ناقابل یقین موقف یونیورسٹی کی کسی خاتون پروفیسر یا فارغ التحصیل لڑکی، کسی یورپی اقدار کی علمبردار یا خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم این جی اوز کی کسی خاتون کارکن یا دانش ور کی نہیں ہے، بلکہ 15 ویں صدی کی ایک ایسی گھریلو بلوچ خاتون کا نقطۂ نظر ہے جس کی سوچ و ہمت کی آبیاری اس کی زمین اور قومی روایات و اقدار نے کی ہے۔
دلیرانہ کردار ماضی میں دفن نہیں ہے۔ موجودہ دور میں بھی بلوچ خواتین بانڈی اور مہناز کی مثالوں کو زندہ رکھی ہوئی ہیں۔ ملکی میڈیا، لکھاری، محقق اور دانشوروں کی نظروں سے اوجھل بلوچ عورت تعلیمی، سماجی، معاشی، ثقافتی اور علمی حقوق کے لئے سرگرم عمل ہے اور بلوچستان کے موجودہ نامناسب حالات میں بھی انصاف کے حصول کے لئے اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
جدید فیشن کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ، بناؤ سنگھار کے جدید معیار کا منہ چڑاتی تعلیم اور شعور سے آراستہ اپنی روایتی لباس میں ملبوس باہمت بلوچ عورت جھلسا دینے والی گرمی اور جما دینے والی سردی کی پرواہ کیے بغیر کسی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج کے سامنے تعلیمی حقوق کے لئے نعرے لگاتی ہوئی نظر آتی ہیں، یا اپنے کسی عزیز کی بازیابی کے لئے کراچی یا کوئٹہ پریس کلب کے سامنے سراپا احتجاج ہیں، یا سالوں سے بچوں کو گود میں لئے کسی احتجاجی کیمپ میں بیٹھی انصاف کا منتظر اور مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ اور کبھی اپنے پیاروں کے لئے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے لاہور و اسلام آباد کا سینکڑوں میل پر محیط ”پیدل مارچ“ کا روح رواں بن کر اپنی عظمت کا اظہار کرتی ہیں۔
Aziz Baloch
twitter
Youtube
Facebook