بلوچ تاریخ خالی جگہیں اور مغالطے


 

Image may contain: Abdulla Baloch

بلوچ تاریخ، خالی جگہیں اور مغالطے
ڈاکٹر شاہ محمد مری اپریل 18, 2020 خصوصی حال رائے دیں

Facebook Twitter Google + LinkedIn
شاہ محمد مری

مغربی اورینٹلسٹوں سے لے کر میر گل خان نصیر تک، اور سوویت سکالرز سے لے کر افغان محققین تک درجنوں مورخوں نے بلوچستان کی تاریخ پہ لکھا، اور بہت کچھ لکھا۔ ظاہر ہے کہ دنیا بھر کی طرح یہاں بھی زیادہ تر نے اہم شخصیات، ہیروؤں، بادشاہوں، پیروں مرشدوں اور معزز افراد کے اقدامات ہی کو بطور بلوچ تاریخ بیان کیا۔ مگر دو چار نے نہایت سائنسی انداز میں بھی ہماری تاریخ لکھنے کی کوشش کی۔ اور ”عوام“ ہی کی تاریخ کو بلوچ تاریخ کہا۔

ان سارے تاریخ دانوں کا احترام۔ اس لیے کہ موجودہ زمانے میں اس موضوع پہ قلم اٹھانے والے سارے اذہان نے انھی کے سرچشموں سے اپنا مشکیزہ بھرا، اور انھی کی دانش گاہ کا نمک کھایا۔

لیکن سائنس، گزشتہ بیس پچیس سالوں سے بے شمار نئی دریافتیں لائی۔ ایسی دریافتیں کہ ہمارے پیش رو مورخوں کی بہت سی تحریریں سوالیہ نشانوں سے بھر چکی ہیں۔ آرکیالوجی، کاربن ڈیٹنگ، اناٹومی، ڈی این اے، اور ڈیجیٹل سائنس کی نئی نئی دریافتیں سامنے آتی گئیں۔ یوں ان سائنسز نے چار ہزار سال سے پہلے کی بلوچ تاریخ کے بارے میں تو اکابر ین کے لکھے سارے حروف، سارے صفحے ہی پھاڑ ڈالے ہیں۔ ساری شاعری، ساری فوک کہانیاں اور ضرب الامثال باطل کر کے پرے پھینکی ہیں۔ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے حالیہ چار ہزار سال کے بھی کئی ادوار اُن محترم لوگوں کی توجہ سے محروم رہ گئے تھے۔

یوں بلوچ تاریخی تسلسل میں بہت بڑے شگاف اور خالی جگہیں رہ گئی ہیں۔ اور نماز کی صفوں کی طرح تاریخ میں بھی خالی جگہوں کو ہمیشہ شیطان پُر کرتا ہے۔ چنانچہ مفروضے گھڑے گئے، تصورات کھڑے کیے گئے اور کچی پکی روٹیاں پکا کر خالی جگہیں پُر کی گئیں۔ اس طرح ہمارے معاشی سیاسی اور ثقافتی ارتقا کی کہانی کا تسلسل بری طرح مسخ ہو گیا۔

بلوچستان کے اوریجن ہی کو لیجیے۔ یہ باقی علاقوں کے برعکس ایک نہیں دو ٹکٹونک پلیٹوں پہ قائم ہے۔ آج کا ”مشرقی بلوچستان“ 144 ملین سال قبل قطب جنوبی سے شمال کی طرف کھسکنے لگا تھا۔ وہ پچاس ملین سال تک سفرِ وصال کی صعوبتیں جھیلتا، اور بغیر سستائے یا آنکھ جھپکے یہ پلیٹ بالآخر اپنے soul mate، یعنی ”مغربی بلوچستان“ سے آن بغلگیر ہوئی۔ اوریوں دس کروڑ برس قبل گریٹر بلوچستان کی تشکیل ہو گئی تھی۔

اِس بڑے بلوچستان پر زندگی کی ابتدا اور ارتقا بارے میں بھی معلومات ابھی حال میں ملی ہیں۔ ابھی بیس برس قبل ہمارے بارکھان میں چار کروڑ ستر لاکھ سال قبل کی وہیل مچھلی کے فاسلز ملے ہیں۔ سمندر کنارے، مگر خشکی پر رہنے والی اس حاملہ وہیل کو”روڈ ھو سی ٹس بلوچستانے سِس“ کا زوالا جیکل نام دیا گیا۔

اسی طرح یہ معلومات بھی تازہ ترین ہیں کہ بلوچستان ساڑھے تین کروڑ سال قبل ایک سرسبز اور گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔ اس پورے wet era کو ابھی حالیہ برسوں میں دریافت کیا گیا۔ فرانسیسی ماہرِفاسلز، ژاں لوپ ویلکم نے اپنی ٹیم کے ساتھ بگٹی علاقہ میں طویل کھدائی کی اور اِن جنگلات میں ”بلوچی تھیریم“ نامی جانور کے فاسلز دریافت کیے۔

مگر سب سے زیادہ افسوس تو ایک اور بہت بڑے خزانے کی اہمیت نہ جاننے پہ ہوتا ہے۔ اور وہ ہے؛ بلوچ مائتھالوجی۔ بلوچ کا یہ ضخیم خزانہ لکھاریوں سے نظرانداز رہا۔ ہمیں خبر تک نہ ہوئی کہ ہماری اصل دولت یعنی اساطیری دولت ہم سے چرا لی گئی۔ بلوچ مائتھالوجی کا جھومر، یعنی ہَنگلاج ہم سے چھن گیا، اور اُس پر باقاعدہ ایک مذہب تشکیل دے دیا گیا۔ اور پھر اُسی مذہب کو حسبِ توقع سیاست میں استعمال کر کے نہ صرف ہندوستان میں رجعت مچا دی گئی بلکہ پورے برصغیر میں فرقہ پرستی کی اندھیر پھیلائی گئی۔ ہم اپنے اس مائتھالوجیکل ورثے کو اپنا بنانے اور اس کے ناز اٹھانے کا بڑا فریضہ اب ضرور سنبھالیں گے۔

مہرگڑھ کا تذکرہ بھی بلوچ تاریخ کی کتابوں میں موجود نہیں ہے۔ اِس کی وجہ بھی یہی ہے کہ گیارہ ہزار سال پرانی یہ سولائزیشن ابھی 1974میں دریافت ہوئی۔ یہ ایک بھر پور زرعی معاشرہ تھا جو پتھر کے زمانوں سے گزرا، پھر یہیں مہرگڑھ میں انسان غلام داری یعنی کانسی کے دور میں داخل ہوا تھا۔ اورپھر یہیں اسی مہرگڑھ میں انسان ہزاروں سال لگا کر لوہے کے زمانے تک پہنچ گیا تھا۔

یہ سارا زمانہ ہمارے محققین، تاریخ نویسوں اور دانشوروں کی معلومات سے اوجھل رہا۔ چنانچہ اُن کے نزدیک بلوچ محض چار ہزار سال قبل آریاؤں کے حملے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ آریاؤں سے پہلے بلوچستان، گویا آدم زاد جننے کی صلاحیت سے ہی محروم تھا۔ چنانچہ قیاس کے دُم کٹے گھوڑے دوڑے۔ ہم کبھی سواستیکا سے ٹانگی ہوئی کٹھ پتلیاں بنائے گئے، کبھی ہم بے چاروں سے دراوڑستان بنوانے کی کوششیں ہوئیں اور عقیدت مند تو بلوچ کو عرب بنا کر اس کے وجود کو محض دو ہزار سال رکھ کر اسے بونا بناتے رہے۔

مائیگریشنوں کی بات کو مسترد بھی ابھی ابھی کیا گیا ہے۔”Death of Arya invasion theory ” ابھی حال ہی میں سائنسی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آ چکی ہے۔

چنانچہ اب صورت یہ ہے کہ بلوچ کو تو مہرگڑھ دریافت کے بعد اپنی قدیم تاریخ نئے سرے سے لکھنی پڑی۔ مگر میری دلچسپی تو پاکستان سٹڈیز کے نصاب ساز دانشوروں کے طرزِ عمل پہ ہو گی، جب اُن تک خبر پہنچے گی کہ موہنجودڑو ہمارے خطے کی تاریخ کا سرچشمہ نہیں بلکہ وہ تو مہرگڑھ کا بیٹا ہے۔ اور یہ بھی کہ موہنجودڑو کا بیٹا ہڑپہ، مہرگڑھ کا پوتا ہے۔

ایک اور حقیقت سامنے آئی ہے۔ وہ یہ کہ مانویت اور مزدکی کسان تحریکوں سے بلوچوں کا تعلق راہبرانہ تھا۔ مگر ہماری یہ مقدس بغاوتیں ہماری تاریخ کی کتابوں سے یکسر غائب ہیں۔

المختصر، ہم ایک بڑے اور پرانے نسلی گروہ سے اٹھے تھے، ہم بے شمار بڑے قومی گروہوں کو تشکیل دیتے رہے اور کچھ کو خود میں ضم کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ہزاروں برس کے پراسیس میں بلوچ ایک کثیرالنسل، کثیرالسان اور کثیرالمذہب قوم بنے۔

یوں مہر گڑھ کا سورج دیوتا بھی ہمارا ہے، اورسواستیکا بھی ہمارا۔ ہَنگلاج کا مندر بھی ہم نے وضع کیا، اورقلات کی کالی، اور مستنگ کا شیو بھی ہماری مائتھالوجی ہے۔ خضدار کی زرتشت گاہوں کے امین بھی ہم ہیں، اور گنداواہ میں بدھ کے آثار بھی ہمارے ہیں۔۔۔ بلوچ ہر عقیدے کی عزت اس لیے کرتا ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی عہد میں اس کے اپنے آبا کے عقائد رہے ہیں۔ مائتھالوجی کی یہ ساری نیرنگیاں ہماری تاریخ سے اوجھل ہیں۔

ایک اور حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ہسٹاریکل میٹریلزم کی ساری سیڑھیاں بلوچستان میں ہی موجود رہی ہیں۔ گیارہ ہزار برس قبل کی پتھر کی کلہاڑی بھی یہاں کی ایجاد ہے۔ بیل گاڑی اور انقلابات کا جدِامجد”پہیہ“ بھی گیارہ ہزار سال قبل یہیں ایجاد کیا گیا۔ ہم نے ہی سرقبیلوی نظام بنایا، اور ہزاروں سالوں تک استعمال کر کے ہم ہی نے اُسے جزوی طور پر توڑ کر فیوڈلزم کی تشکیل کی۔ بلوچ کا یہ سارا تذکرہ بلو چ تاریخ میں ابھی تک شامل نہ رہا۔

مہرگڑھ کی پولیٹیکل اکانومی تو چھوڑیے بلوچ تاریخ کی کتابوں میں اب تک یہ تذکرہ بھی موجود نہیں ہے کہ بلوچ کے ہاں غلام داری کی باقیات حالیہ دور میں انگریز نے ختم کیں۔

ہم اُس بڑی کسان تحریک کے بارے میں بھی ابھی جان سکے ہیں جو آج سے پانچ صدی قبل 1574 میں خضدار کرخ کے علاقے جھالارو میں چلی تھی۔ اتنی بڑی کسان بغاوت کہ اسے کچلنے کے لیے خان قلات امیر سنجر کو ایک بڑا لشکر ”جھالارو“ بھیجنا پڑا تھا۔ سخت لڑائی ہوئی تھی۔ کسانوں کا لیڈر سومارؔجنگ میں مارا گیا اور کسان تحریک کچل دی گئی تھی۔

مورخ کو یہ بات بھی ابھی لکھنی ہے کہ ستارھویں صدی میں بلوچ سماج کی زراعت بڑے پیمانے پر شخصی ملکیت میں چلی گئی تھی۔ یہ بھی کہ سال 1666میں عدالتی اخراجات کے نام پر پہلا سرکاری ٹیکس ”مالی“ کے نام پہ لگایا گیا تھا۔ ایک اور بدنما زرعی ٹیکس ”ششک“نام سے لگا دیا گیا۔ ہمارے عوام پہ لگے کچھ دیگر ٹیکسوں کے نام یہ تھے: گھال، تنڑیں، سُنگ، دھڑ، زرِ شاہ، پنچک، اور ششک۔ حتیٰ کہ ایک قبیلے میں موت پر بھی ٹیکس لاگو کیا گیا تھا؛ ایک چونی فی میت۔

اس کسان تحریک کی بات بھی تفصیل سے موجود نہیں ہے جو ابھی نصف صدی قبل نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت میں چلی تھی۔ تب ”ششک“ نامی ٹیکس کے خلاف ایک زبردست کسان ابھار آیا تھا۔ جسے دبانے کو صوبائی ملیشیا، پولیس اور فیوڈلوں کے باڈی گارڈز پر مشتمل ایک ہزار مسلح افراد نے کسانوں پہ حملہ کر دیا۔ ان کی تیار فصل کے کھلیان اور گھروندوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اُن کی گرفتاریاں ہوئیں، انھیں علاقہ بدر کر دیا گیا۔ اور کاشتکاروں کی اموات ہوئیں۔ گو کہ اس کسان تحریک کو بھٹو نے بھی اپنی نیپ دشمنی میں آلودہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر اُس وقت تک یہ تحریک ہماری سامراج دشمن مگر فیوڈل حکومت ہی کے ہاتھوں کچل دی گئی تھی۔

اِسی طرح ہمارا ایک اور زرعی خطہ پٹ فیڈر بھی مورخین و محققین کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔ پٹ فیڈر، تو سمجھو کسان بغاوتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں دسمبر 1977 کی کسان جنگ سب سے نمایاں ہے۔ کسی بھی مورخ نے اِن کسان بے آرامیوں، جھڑپوں اور بغاوتوں کا تذکرہ نہیں کیا۔ یوں بے شمار کسان مزاحمتیں بلانوٹس و تذکرہ وقت کی دھند میں گم ہو گئیں۔ بے مورخوں کی سرزمین ہے یہ!!۔ کاش ہم بے پیر، بے میر ہوتے مگر بے مورخ نہ ہوتے۔

بلوچستان میں کپٹلزم کے ارتقا پر بھی بات نہ ہوئی۔ اٹھارویں صدی تک ہندوستان، ایران اور افغانستان کی بین الاقوامی تجارت کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے راستے ہوا کرتا تھا۔ ہندوستان کے ملتان سے ایک مستقل تجارتی شاہراہ قلات آتی تھی۔ اور پھر یہ شاہراہ خضدار اور بیلہ سے ہوتی ہوئی سومیانی کی بین الاقوامی بندرگاہ تک پہنچتی تھی۔ اُس وقت خطے کی بڑی بندرگاہ کراچی نہیں سومیانی ہوا کرتی تھی۔ شرقاً غرباً پھیلی سومیانی تا ملتان شاہراہ پر سال بارہ ماہ اونٹوں کے تجارتی قافلوں کی ریل پیل ہوتی تھی۔ اِسی کی وجہ سے سارے مشہور شہر اور سرائے بھی مغرب سے مشرق کی طرف بنے تھے۔

مگر بعد میں جب انگریز، ریلوے لائن لایا تو اونٹوں کے ذریعے تجارت ختم ہو گئی اور ریلوے نے اس کی جگہ لے لی۔ چنانچہ مغرب مشرق کے شہر نہ صرف اجڑ گئے بلکہ ان کے نام تک مٹ گئے ہیں۔ اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ شمال جنوب میں جیکب آباد، سبی، مچ، کولپور اور کوئٹہ نامی مقامات پہ اب جگمگ کرتے وسیع اور گنجان شہر بن گئے جن کے نام بھی پہلے کسی نے نہ سنے تھے۔ چنانچہ بلوچ نے جانا کہ درندہ صفت سرمایہ التفات کرے تو جنگل منگل بن جاتا ہے اور جب یہ منہ پھیر لے تو صدیوں سے آبادشہر الَو بولتے کھنڈر بن جاتے ہیں۔

تجارتی ٹیکسوں، مائننگ اور بحری تجارت کے ذریعے سرمائے نے ہمارے سماجی فیبرک کو تہہ وبالا کر دیا۔۔۔ سرمائے کی ان فتوحات کی تاریخ ہمارے مورخوں نے نہیں لکھی۔

اسی طرح ہماری اورل پوئٹری سے لے کر قلم و قرطاس تک سب سے زیادہ توجہ انگریز کے خلاف ہماری طویل مزاحمتی جنگ پہ رہی۔ مگر اس بات پہ زیادہ زور دینا چاہیے تھا کہ بلوچ، خالص ترین ”جنگِ آزادی“ لڑے۔ ہمیں کبھی بھی کسی دو قومی نظریے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس لیے کہ ہمارا بادشاہ محراب خان اور ہمارا وزیر خزانہ دیوان بچل مل دونوں، کندھے سے کندھا ملائے آزادی کی جنگ میں کٹ مرے۔ اسی طرح صنفی امتیاز سے پاک اِس جنگ میں ہماری گل بیبیاں اور ہمارے جیئند خان آزادی کی جنگ کے مورچوں میں موجود رہے۔

یہ معلومات بھی ابھی حال ہی میں کوئٹہ سول سیکریٹریٹ کے آرکائیوز سے ملی کہ 1917 کے بعد ہماری یہ جنگ محض سامراج دشمن جنگ نہ رہی۔ اب اس میں سماجی انصاف کے نظریات بھی شامل ہو چکے تھے۔ لینن نے چند اولین کاموں میں ایک یہ کیا کہ کابل میں موجود اپنے سفیر کو بلوچ تحریکِ آزادی کی حمایت و مدد کا خط لکھا جو اب بھی موجود ہے۔ بلوچ تحریک کا بین الاقوامی مزدور تحریک سے پہلا سیاسی رابطہ مصری خان کھیتران کے ذریعے ہوا۔ پھر باکو کانفرنس میں تاراچند بلوچ کی قیادت میں پانچ رکنی وفد کی شرکت تھی۔ یہ پورا باب ہماری تاریخ کی کتابوں میں موجود نہیں ہے۔

ایک دوسرے سلسلے کی طرف بھی ہماری توجہ ابھی ابھی مبذول ہوئی۔”ینگ بلوچ“ نامی ایک پہلی زیرِزمین سیاسی پارٹی 1920 میں بنی تھی۔ اس کا دوسرا نام انجمن اتحادِ بلوچاں تھا۔ اسی پارٹی نے پھر آگے چل کر آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا نام دھار لیا۔ 32،1933 میں اس پارٹی کی چار چار روزہ سالانہ کانفرنسوں کی مثال پورے خطے کی سیاسی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ اور یہ بھی تصور سے پرے کی بات ہے کہ یہ پارٹی آٹھ اخبارات چلاتی تھی۔: ہفت روزہ البلوچ کراچی دو سال چلا اور بند کر دیا گیا، جہازی سائز والا ہفت روزہ ”بلوچستانِ جدید“ 5 ماہ تک پارٹی کا ترجمان بنا رہا۔ بند ہوا تو سہ روزہ ”ینگ بلوچستان“ کراچی سے جاری ہوا۔ اس کے بیس شمارے ہماری ترجمانی کرتے رہے۔ ایک اور سہ روزہ ”نجات“ کراچی تھا جس کے ساٹھ شمارے نکلے۔ ہفت روزہ ”بلوچستان“ بھی کراچی سے نکلتا تھا۔ جیکب آباد سے الحنیف یہ کام کرتا رہا۔ مولانا ظفر علی خان کا زمیندار لاہور تو سمجھو آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا ہی اخبار تھا۔ انقلاب اور مساوات لاہور بھی ہماری ترجمانی کیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں بلوچ تاریخ کے دو اہم ترین پمفلٹس یا کتابچے، شمس گردی اور فریادِ بلوچستان چھپے تھے۔

بلاشبہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی تحریکِ آزادی کے سارے تحریری مواد کو ایک طرف کر لیں تب بھی بلوچ کا تحریری مواد اُن سے کم نہ ہو گا۔ مگر افسوس، یہ اخبارات اور کتابچے ہمارے پیش روؤں کو دستیاب نہ تھے۔ اور ابھی 2017 کو یہ پورا خزانہ دستیاب ہوا ہے۔

تاریخ کی کتابیں اس بات پہ بھی خاموش ہیں کہ انگریز کی طرف سے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کو تباہ کرنے کے بعد 42‘1941 میں بلوچستان مزدور پارٹی نامی سیاسی پارٹی قائم ہوئی تھی۔ اس کی طرف سے منعقدہ یوم مئی کے بڑے جلسے، جلسوں کی قراردادیں، اور جدوجہد کی تفصیل بھی حال ہی میں سامنے آئی ہے۔

بلوچستان میں ”لٹ خانہ تحریک“ کی تفصیلات بھی ابھی پندرہ بیس سال ہوئے سامنے آئی ہیں۔ یہ تحریک 1950 میں شروع کی گئی تھی۔ اتنی درخشاں تحریک کا تذکرہ بھی ہماری تاریخ کی کتابوں میں شامل نہ رہا۔

ون یونٹ کے خلاف تو بلوچ اپنا قلم، تلوار، لاٹھی جو کچھ میسر آیا، اٹھا کر لڑا۔ ایک پوری نسل جدوجہد میں جوان ہوئی۔ بلوچی زبان اور تاریخ، اذیت کے اسی زچہ خانے میں، بلکتے تڑپتے ہکلاتے مگر غراتے ہوئے تخلیق ہوتی رہی۔ یہ سارا دور بھی تاریخ کی کتابوں میں مفصل طور پر جگہ نہ بنا سکا۔

بلوچستان میں آج بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس کا مخفف BAP ہے، باپ۔ یہ باپ الیکشن سے چند گھڑی قبل بنی۔ (باپ اور مؤنث؟)۔ چند گھڑی قبل بنی یہ باپ الیکشن جیتی اور حکمران بنی۔ باپ کے سربراہ اور ہمارے موجودہ وزیراعلیٰ کے باپ کا نام جام یوسف تھا۔ وہ بھی ہمارا وزیراعلیٰ تھا۔ اُس کا باپ جام غلام قادر بھی ہمارا وزیراعلیٰ رہا تھا۔

یعنی آج کی یہ ”باپ گیری“ آج کی نہیں ہے۔ ایک دیرپا خانہ جنگی بھڑکانے والی اِس قدیم باپ بازی کو لکھنا ابھی باقی ہے۔

ستر کی دہائی میں بلوچوں کے ایک حصے افغانستان میں فیوڈلزم کو کچلتا ہوا، ٹرائبلزم کو قوم میں بدلتا ہوا، سرف ڈم کی بیڑیاں کاٹتا ہوا اور عورتوں کو نجات دلاتا ہوا انقلاب آ گیا تھا۔ وہاں بلوچی جیسی اقلیتی مادری زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ ملا۔ بلوچی میں سائنسی علوم کے تراجم ہونے لگے، ہمارا ادب دیکھتے دیکھتے بین الاقوامی بنا۔ اور وہاں بلوچی زبان کا اخبار اور اشاعتیں تعداد میں زیادہ اور حجم میں ضخیم سے ضخیم تر ہوتے گئے۔ ہم نے اس انقلاب کو بلوچ انقلاب کے بطور اپنی تاریخ میں ابھی تک شامل نہیں کیا۔

مگر یہیں ضیاالحق نے لاکھوں مہاجر وں کو بلوچستان انڈیل کر بلوچ بدبختی کئی گنا بڑھا دی۔ ہمارا سیاسی، ثقافتی تسلسل پھر بلیک ہول نے نگل لیا۔ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کو منشیات، رہبانیت، اسلحہ برداری اور ماضی پرستی پر لگا دیا گیا۔ ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ہر طرح کی صورت پذیر سیاسی سماجی تحریک کو پکنے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا رہا۔ اس سیاہ بختی پر بھی لکھنا ابھی باقی ہے۔

ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ پون صدی کی بلوچ تاریخ، ارتقا کے الگ الگ خطوں سے وابستہ تاریخ ہے۔ پاکستانی بلوچستان میں جاگیرداری اور ون یونٹ ہے، ایرانی بلوچستان فاشزم کی ایک دوسری محیرالعقل قسم سے نمٹ رہا ہے، اور افغانستان کے بلوچ آٹھ دس برس تک سوشلزم کی چوکھاٹ چھو کر ایک گنبدِ بے در میں پٹخ دیے گئے ہیں۔ اس مجموعی بلوچ سرگزشت کو ابھی لکھا جانا ہے۔

المختصر! ینگ بلوچ سے لے کر آج تک ہماری پوری سیاسی تحریک بنیادی طور پر ایک سامراج دشمن، آزادی پسند کسان تحریک رہی۔ تنظیمی طور پر یہ تحریک کبھی موٹی، کبھی لاغر اور کبھی بہت ہی ناتواں رہی۔ حتیٰ کہ یہ تحریک اپنے نام اور حلیے میں ہر تبدیلی سے ذرا قبل بقا کے ونٹی لیٹر میں بھی پڑی رہی۔ بیچ بیچ میں ایک دو سالہ معدومیت بھی اُس کے حصے میں آتی رہی ہے۔ ہاں، مگر اس کی باقاعدہ فاتحہ خوانی کی چٹائی کہیں نہیں بچھی۔ یہ بغیر کسی نوٹس کے مرتی رہی اور بغیر کسی منادی کے دوبارہ جنم لیتی رہی۔ بغیر کسی تقریب و جشن کے اس کا پرچم ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کو، ایک وارث سے دوسرے وارث کو، اور ایک امین سے دوسرے امین کو منتقل ہوتا رہا۔ مگر اس سیاسی تحریک کی تاریخ مربوط وجامع طور پر اب تک نہ لکھی گئی۔

آج صورت یہ ہے کہ فکری، معاشی اور جغرافیائی بالادستی کے قیام و وام کے لیے یہاں ایک جنگی فضا قائم کر دی گئی ہے۔ اِس جنگی فضا نے زندگی، روشنی، رقص، رنگ، آہنگ سب کے نرخرے پہ پاؤں رکھا ہوا ہے۔ آج کا بلوچستان کُشت کا نام ہے، خون کا نام ہے۔ کوئی وادی کوئی آبادی ایسی نہیں ہے جہاں امن کی دیوی کا ایک ہفتے تک کا بھی قیام رہا ہو۔ فاشزم نے ہمارے مڈل اور اپر مڈل کلاس کو ہڈی کے گُودوں تک کرپٹ، خوف زدہ اور موقع پرست بنانے کی ہر سعی کی ہے۔ دانشور کو تعاقب کر کر کے شکار کیا گیا، مدافعتی بنا دیا گیا، اور فسطائیت مطمئن کہ گویا اب ہمارے ہاں کی مڈل کلاس ایک انتہائی متزلزل، غیرذمہ دار اور غیر تیار مڈل کلاس ہے۔

مگر یہ بھی صحیح ہے کہ یہ اکیسویں صدی بھی تو ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی لہریں موجیں بحرِبلوچ کے ساحلوں تک آن ٹکراتی ہیں۔ سائنسی خیالات منجمد روایتوں، پختہ خیالوں اور پسپائی کے نظریات کی سرحدوں پہ شُتر قد سرنگیں ڈال رہے ہیں۔ آج نہ تو درختوں کے پتے بلوچوں کے آب خورے ہیں اور نہ خاردار جھاڑیاں ہماری نشست گاہیں ہیں۔ خانہ بدوشی کا تناسب گھٹتا جا رہا ہے۔ شِکروں یا شَکرخوروں کو وزارتیں، مشاورتیں سفارتیں ملنے لگی ہیں۔ پجیرو اور جھنڈے دستیاب ہو گئے ہیں۔ عام بلوچ تعلیم، ملازمت، تجارت اور اربنائزیشن کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ انٹلجنشیا اور سپیشلسٹوں کی تعداد اب صفر نہیں ہے۔ مطالبات اب تحریری صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ عوام کی طرف داری کرنے والے دانشور اگر ایک طرف ون یونٹی ذہنیت کے خلاف صف آرا ہیں تو دوسری طرف سخت ترین داخلی فیوڈل نظام کے خاتمے کی دلیلیں بھی بلند آواز سے دے رہے ہیں۔ آبادی، آزادی اور سائنسی شہری بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے کی باریک خوف زدہ آوازیں اب بھاری بھی ہوتی جا رہی ہیں اور بلند آہنگ بھی۔ ایک حتمی خودمختاری لیے امن، اور شفاف و مکمل جمہوریت حسرت کے بجائے مطالبے بنتے جا رہے ہیں۔

عوامی تاریخ کے ان سارے مراحل کو لکھنا ہو گا۔ کیوں کہ ہماری یہی عوامی تاریخ تو عوامی راج والے مستقبل کی طرف لے جانے کی ضامن ہے۔

 

f https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10222382858338796&set=pob.1188011888&type=1&theater

twitter
Youtube
Facebook