ایرانی بلوچستان کی تقسیم کے منصوبے پر بلوچوں کو شدید تحفظات- تران گوں اسماعیل امیری


معروف مصنف و دانشور برطانیہ میں مقیم اسماعیل امیری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں ہی ایرانی بلوچستان کے بعض حصے الگ کر کے خراسان، کرمان صوبہ میں شامل کیے گئے۔

اسماعیل امیری کہتے ہیں کہ جب نیا صوبہ ہرمز بنایا گیا۔ تب بھی کچھ حصے اس میں شامل کر کے اسے بلوچستان و سیستان کا نام دیا گیا۔

امیری کے مطابق، ’ایرانی حکومت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح بلوچستان کا نام تبدیل یا ختم کیا جائے۔ لیکن بلوچ قوم کی مخالفت کے باعث اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ ایرانی حکومت جہاں ایک طرف بلوچ قوم کے علاقے کو الگ الگ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ چونکہ سیستان بلوچستان کا اہم علاقہ ساحلی علاقہ ہے، جسے اس نے مکمل قبضے میں رکھنا ہے۔‘

امیری نے مزید بتایا کہ ’ایرانی حکومت اس کے علاوہ بلوچوں کے علاقے میں ترقی کے نام پانچ سے دس ملین غیر بلوچوں کو آباد کر رہی ہے، جو ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کو اس علاقے میں اقلیت میں تبدیل کر دے گی۔ ایرانی سیستان بلوچستان کی تقسیم سے پاکستان، افغانستان میں بھی موجود بلکہ جہاں بھی بلوچ قوم آباد ہے۔ ان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے بعد اس علاقے میں ایک چھوٹے سے علاقے کا نام بلوچستان رہ جائے گا۔‘

ایرانی بلوچستان کی تقسیم کے منصوبے پر بلوچوں کو شدید تحفظات

ایرانی حکومت نے سیستان و بلوچستان صوبے کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس پر مقامی بلوچوں کو سخت تحفظات ہیں۔

سیستان و بلوچستان صوبے کا ساحلی منظر (ہادی کریمی: کری ایٹو کامنز)

ایران کی اسلامی مشاورتی کونسل کے ایک رکن سید محسن دہنوی نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے پیش کیے جانے والے اس منصوبے کا مقصد بلوچوں کو الگ تھلگ کرنا ہے۔

ایران کے سرکاری خبررساں ادارے ارنا کے مطابق سید محسن دہنوی نے ملک کی سپریم کونسلوں کی منظوری کے بارے میں اسلامی مشاورتی اسمبلی کے ذریعہ نگرانی کے منصوبے کی منظوری کا اعلان کیا۔

ایرانی حکومت نے پاکستانی بلوچستان سے ملحقہ ایران سیستان و بلوچستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے جس کے بلوچستان، سیستان، مکران اور سرحد نامی چار صوبے وجود میں آ جائیں گے۔

ایران کی قومی اسمبلی ’مجلسِ شورائے اسلامی‘ میں بلوچستان اور سیستان صوبوں کے دو دو، جب کہ مکران اور سرحد کا ایک ایک نمائندہ شامل ہو گا۔

اس رپورٹ کے مطابق نئے بننے والے صوبوں کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:

ایرانی سیستان و بلوچستان کی تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ایرانی سیستان و بلوچستان صوبے کے رہائشی امیر علی کہتے ہیں کہ ان کے صوبے کی تقسیم کی خبریں کچھ عرصے سے گردش کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب ایران میں احمدی نژاد صدر تھے اس وقت بھی یہ بات ہوئی تھی لیکن بلوچ قوم کے نمائندوں کے اعتراض کے بعد مرکزی شوریٰ نے اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

امیر علی نے کہا کہ بظاہر اس فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ ایران میں مقیم بلوچ اور ان کے ساتھ آباد شیعہ آبادی کو الگ کیا جائے۔ موجودہ صورت میں شیعہ کے ساتھ سنیوں کو بھی مراعات مل جاتی ہیں، اس فیصلے کے بعد ایسا نہیں ہو گا۔ مقامی باشندے سمجھتے ہیں کہ رقبے کو کم کرنے سے فنڈز بھی کم ہو جائیں گے اور اس علاقے کو چار حصوں میں تقسیم کر کے اس کی طاقت کو کم کرنا ہے۔

امیر علی نے بتایا کہ تقسیم سے لوگوں کو اپنے کام کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہو گا، کیوں اس سے قبل مرکز صرف زاہدان تھا، اب ہر علاقے کا مرکز تبدیل ہو گا۔

تاہم اس فیصلے کے خلاف مقامی سطح پر کسی قسم کا احتجاج کا امکان نظر نہیں آتا کیوں کہ ایران میں احتجاج کرنا غیر قانونی ہے اور کسی کو بھی حکومتی فیصلوں پر احتجاج کا حق حاصل نہیں ہے۔

ایرانی بلوچستان میں مقیم باشندوں کی اکثریت تیل کے کاروبار سے منسلک ہیں جو پاکستانی بلوچستان کے راستے سپلائی ہوتا ہے۔

مقامی باشندوں کے مطابق ایرانی بلوچستان میں ذریعہ تعلیم فارسی ہے اور کوئی بھی بلوچ قومی سطح کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔

واضح رہے کہ ایرانی سیستان بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان میں اکثر آبادی ایک دوسرے کے ساتھ صدیوں سے جڑی ہے اور ان کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔

ادھر ایرانی بلوچستان پر میں تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے دانشور سمجھتے ہیں کہ حالیہ تقسیم کا فیصلہ بلوچوں کی مرکزیت کا ختم کر کے ان کو اقلیت میں تبدیل کر دے گا، جس کے مستقبل میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

معروف مصنف و دانشور برطانیہ میں مقیم اسماعیل امیری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں ہی ایرانی بلوچستان کے بعض حصے الگ کر کے خراسان، کرمان صوبہ میں شامل کیے گئے۔

اسماعیل امیری کہتے ہیں کہ جب نیا صوبہ ہرمز بنایا گیا۔ تب بھی کچھ حصے اس میں شامل کر کے اسے بلوچستان و سیستان کا نام دیا گیا۔

امیری کے مطابق، ’ایرانی حکومت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح بلوچستان کا نام تبدیل یا ختم کیا جائے۔ لیکن بلوچ قوم کی مخالفت کے باعث اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ ایرانی حکومت جہاں ایک طرف بلوچ قوم کے علاقے کو الگ الگ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ چونکہ سیستان بلوچستان کا اہم علاقہ ساحلی علاقہ ہے، جسے اس نے مکمل قبضے میں رکھنا ہے۔‘

امیری نے مزید بتایا کہ ’ایرانی حکومت اس کے علاوہ بلوچوں کے علاقے میں ترقی کے نام پانچ سے دس ملین غیر بلوچوں کو آباد کر رہی ہے، جو ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کو اس علاقے میں اقلیت میں تبدیل کر دے گی۔ ایرانی سیستان بلوچستان کی تقسیم سے پاکستان، افغانستان میں بھی موجود بلکہ جہاں بھی بلوچ قوم آباد ہے۔ ان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے بعد اس علاقے میں ایک چھوٹے سے علاقے کا نام بلوچستان رہ جائے گا۔‘

امیری کے بقول: یہ وہی انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی ہے۔ تاہم اس میں مزید نقصان یہ ہو گا کہ اس سے بلوچ قوم کے ثقافت ،زبان کو کمزور کرنے کے ساتھ سیاسی حوالے سے بھی ان کو بے دست و پا کر کے ان کے ساحل اور وسائل، معدنیات پر مکمل قبضہ جمانا ہے۔

اسماعیل نے بتایا کہ چونکہ بلوچستان کی سٹریٹیجک اہمیت زمانہ قدیم سے رہی ہے۔ قدیم فاتحین ہندوستان کو لوٹ کر اسی راستے گزر کر جاتے رہے ہیں۔ انگریزوں نے بھی افغانستان کو بفر زون بنا کر روس کا  گرم پانیوں تک راستہ روکنے کے لیے بلوچ قوم کی سرزمین پر گولڈ سمتھ لائن لگا کر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا۔ اب بھی ایران اور چین کے درمیان معاہدات اقتصادی مفادات کے ساتھ سیاسی اور سٹریٹیجک بھی ہیں۔

ایرانی سیستان بلوچستان کی تقسیم اور غیر بلوچ آبادی کے انخلا سے جہاں ڈیموگرافک تبدیل آئے گی، وہاں بلوچ قوم کی ثقافت اور زبان کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔

امیری کا کہنا ہے کہ اس کے منفی اثرات پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان دونوں پر مرتب ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’زیادہ اثر سرحد کے اس پا ر ہو گا۔ جہاں اب بھی روزگار کے ذرائع کم ہیں۔ غیر بلوچ آباد کے آنے سے یہاں کے اقتصادیات اور تجارت ان کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ جس سے بلوچ قوم کی معاشی حالت مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔‘

امیری مزید کہتے ہیں کہ مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کا ساحل جو آبنائے ہرمز اور گوادر کے قریب ہے، سٹریٹجک حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس تقسیم سے ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ بلوچوں سے یہ روزگار چھن سکتا ہے، کیوں کہ نہ اس کے پاس سیاسی طاقت ہے اور نہ ہی وہ مالی حوالے سے اتنے طاقتور ہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکیں۔

مشرقی اور مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان کو مغربی اور پاکستان کے حصے کو مشرقی کہا جاتا ہے) کے باشندوں کے رسم و رواج اور ثقافت اور زبان میں کوئی فرق نہیں، تاہم ایرانی حصے میں بلوچی زبان میں فارسی الفاظ بہت حد تک شامل ہو گئے ہیں۔ امیری کا خیال ہے کہ موجودہ فیصلے کے بعد  آبادی کے انخلا سے بلوچی زبان کو معدومی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

امیری نے بتایا کہ اس کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ جن علاقوں کو خراسان اور کرمان میں شامل کیا گیا وہاں کے بلوچ اسی ثقافت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم کو انگریز کے زمانے سے تقسیم کا سامنا ہے۔ اس سے قبل اسے تین ملکوں میں تقسیم کیا گیا، پھر کچھ حصے پنجاب اور کچھ سندھ میں شامل کیے گئے۔

گو کہ تجزیہ کار ایرانی حکومت کو اس فیصلے کو سرحدوں پر کنٹرول اور ساحل وسائل پر قبضے کی کوشش قرار دیتے ہیں، تاہم دوسری جانب مقامی باشندے بھی روزگار مرکز کی تبدیلی روزگار میں کمی کے خدشے سے پریشان ہیں۔

https://www.independenturdu.com/node/53186?fbclid=IwAR2wgGi0VcG798VYf4rQcwmkp_HhiaLfW4P_yciKYQVsaFcMCl-pJvv5ipY

twitter
Youtube
Facebook