Read also from: بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
’گوادر کو حق دو‘ تحریک کی جانب سے 15 نومبر سے گوادر کے پورٹ روڈ پر جاری دھرنے کی حمایت میں پیر کو سینکڑوں خواتین نے گوادر میں احتجاجی ریلی نکالی جسے شہر کی تاریخ میں خواتین کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جا رہا ہے۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی بہرام بلوچ نے شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے اس ریلی کو نہ صرف گوادر بلکہ بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی خواتین ریلی قرار دیا ہے۔
اس ریلی سے انگریزی، اردو اور بلوچی زبان میں خطاب کرتے ہوئے طالبہ نفیسہ بلوچ نے کہا کہ ’ہم گوادر کی مائیں اور بہنیں مولانا ہدایت الرحمان کو ڈرانے والوں کو یہ بتا دینا چاہتی ہیں کہ وہ ایک فرد نہیں ہیں بلکہ گوادر اور مکران کے مظلوم عوام کی آواز ہیں۔‘
اگرچہ حکومت نے گوادر کو حق دو تحریک کے چار مطالبات کے حوالے سے نوٹیفیکیشن جاری کیے ہیں لیکن دھرنے کے شرکاء ان پر عملدرآمد کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں۔
دریں اثناء مکران ڈویژن کے ہیڈکوارٹر تربت میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سرحدی تجارت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے جن میں ٹوکن سسٹم کا خاتمے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔
ریلی سے گوادر کو حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے بھی خطاب کیا۔
بعض خواتین نے کہا کہ وہ مجبور ہو کر اپنے گھروں سے نکلی ہیں کیونکہ ان کے مردوں کا روزگار ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری اور ایرانی سرحد پر تجارت پر پابندیوں کے بعد ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
اس موقع پر نفیسہ بلوچ کا کہنا تھا کہ مولانا ہدایت الرحمان کو ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن وہ ڈرانے والوں کو بتا دینا چاہتی ہیں کہ مسلسل ظلم و جبر کے باعث ڈر اور خوف ختم ہو جاتا ہے۔
’یہاں ظلم کی انتہا ہے۔ ہم بھوکے ہیں، بے روزگار ہیں، ہمیں نہ صحت اور تعلیم کی سہولت حاصل ہے۔ یہاں نہ پانی ہے اور نہ بجلی۔‘
نفیسہ بلوچ نے کہا کہ ڈرانے والے اپنی طاقت دکھا چکے ہیں اور اب ہم اپنی طاقت دکھائیں گے۔
’ہم نکلے ہیں ان اداروں اور کرپٹ لیڈروں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اور مولانا سے ان کی بہنوں کا وعدہ ہے کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ ہیں۔‘
گوادر میں خواتین کی ریلی کا آغاز الجوہر پبلک سکول سے ہوا اور مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی ریلی نے جیبڈی پارک پر جلسہ عام کی شکل اختیار کی۔
گوادر میں 15 نومبر سے دھرنے کے آغاز سے اب تک خواتین کی ریلی اپنی نوعیت کی تیسری بڑی ریلی تھی۔
اس سے قبل عام لوگوں اور بچوں کی بڑی ریلیاں نکالی گئیں لیکن خواتین کی ریلی سب سے منفرد تھی کیونکہ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں پہلے خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلنے کی مثال نہیں ملتی۔
گوادر کے سینیئر صحافی بہرام بلوچ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل نہ صرف گوادر میں خواتین اتنی بڑی تعداد میں کسی احتجاجی ریلی میں شرکت لیے نہیں نکلی ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے کسی اورعلاقے میں اس کی نظیر ملتی ہے۔‘
اُنھوں نے اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ جن مسائل کے حوالے سے گوادر میں جو دھرنا دیا جا رہا ہے ان سے گوادر کی پوری آبادی متاثر ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ گوادر میں لوگوں کے معاش کے دو بڑے ذرائع ہیں جن میں ماہی گیری اور ایران سے سرحدی تجارت شامل ہیں۔
’اس وقت یہ دونوں شعبے تباہ ہو گئے ہیں۔ ماہی گیری کو ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری جبکہ ایران سے سرحدی تجارت کو ٹوکن سسٹم کے نام پر حکومت کی جانب لگائی جانے والی پابندیوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح لوگ بہت بڑی تعداد میں چیک پوسٹوں سے متاثر ہیں۔‘
بہرام بلوچ کے مطابق چونکہ گوادر کی آبادی کا ہر فرد متاثر ہے اس لیے خواتین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔
حق دو تحریک کی جانب سے گذشتہ ہفتے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں کوسٹل ہائی اور ایکسپریس وے کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
لیکن بلوچستان کے کابینہ کے تین اراکین سید احسان شاہ، میر ظہور بلیدی اور لالہ رشید بلوچ نے گوادر میں دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کیے اور شرکاء کے چار مطالبات سے متعلق نوٹیفیکشن جاری کر کے ان کو مولانا ہداہت الرحمان کے حوالے کیا گیا۔
جن چار مطالبات پر عملدرآمد سے متعلق نوٹیفیکشن کا اجراء کیا گیا ان میں بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالروں کے ذریعے ماہی گیری پر پابندی اور ان کے خلاف کارروائی، سرحد پر نقل و حمل کی مانیٹرنگ فرنٹیئر کور کے بجائے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کرنے، کوسٹ گارڈ کی تحویل میں لوگوں کی گاڑیاں چھڑوانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے معاونت فراہم کرنے، اور گوادر میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر شراب کی دکانوں کو تاحکم ثانی بند کرنے سے متعلق تھے۔
ان نوٹیفیکیشنز کے اجراء کے بعد دھرنے کے شرکاء نے شاہراہوں کی بندش کے اعلان پر عملدرآمد کے فیصلے کو مؤخر کرنے کا اعلان تو کیا مگر دھرنے کو ختم نہیں کیا۔
ان نوٹیفیکشنزکے اجراء کے بعد وزراء کی جانب سے شرکاء سے دھرنے کو فوری طور پر ختم کرنے کا کہا گیا مگر دھرنے کے شرکاء نے کہا کہ وہ تین دن تک ان پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد دھرنے کو ختم کرنے یا جاری رکھنے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
مگر وہ تین دن گزر گئے ہیں اور نہ صرف دھرنا جاری ہے بلکہ گوادر کی خواتین بھی دھرنے کی حمایت میں گھروں سے نکل آئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
چار مطالبات سے متعلق نوٹیفیکشنز کے فوری اجراء کے باوجود دھرنے کو ختم نہ کرنے سے متعلق سوال پر گوادر کو حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ نوٹیفیکشن تو جاری کیے گئے لیکن عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جو مطالبات ہیں ان میں سب سے اہم لوگوں کے معاش اور روزگار سے متعلق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر کے روز بھی اورماڑہ میں بلوچستان کی سمندری حدود میں 30 سے 40 ٹرالر ماہی گیری کرتے رہے اور ہمارے مقامی ماہی گیروں کے جال وغیرہ کو کاٹ کر لے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحدی تجارت کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نوٹیفیکشن کے مطابق نقل و حمل کی مانیٹرنگ ضلعی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے یہ بدستور ایف سی کے ہاتھ میں ہے اور پہلے کی طرح ٹوکن سسٹم جاری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا مطالبہ یہی ہے کہ ٹوکن سسٹم کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور سرحدی تجارت کو پہلے کی طرح بحال کیا جائے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ جب گوادر کے لوگوں کے معاش کے ذرائع کو تباہ کرنے کے عوامل کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں تو لوگوں کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بڑے مطالبات پر فوری طور پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو جمعرات سے دھرنے کے شرکاء نے کوسٹل ہائی وے کو مختلف مقامات پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ گوادر میں ایکسپریس وے پر بھی دھرنا دیا جائے گا۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ پورٹ روڈ پر دھرنا بھی جاری رہے گا۔
گوادر سے متصل ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت مکران کے سرحدی علاقوں میں تجارتی امور سے متعلق اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں صوبائی وزراء کے علاوہ پاکستانی فوج کی 12 کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا، آئی جی پولیس، جی او سی 44 ڈویژن، آئی جی ایف سی، کمانڈر نیوی اور دیگر متعلقہ وفاقی و صوبائی حکام نے شرکت کی۔
ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں سرحدی علاقوں کے عوام کے ذریعہ معاش اور سہولت کے پیش نظر تیل اور اشیاء خور و نوش کی ایران سے تجارت کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
اجلاس کو سرحدی تجارت کے روایتی طریقہ کار اور مجوزہ ماڈل سے متعلق بریفنگ دی گئی اور علاقے کے لوگوں کی سرحد پر آمد و رفت اور تیل لانے کے لیے ٹوکن کے حصول کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گاڑی ڈرائیور اور اس کے ساتھی کی شناختی کارڈ کی بنیاد پر مقامی انتظامیہ رجسٹریشن کرے گی اور رجسٹریشن کے طریقہ کار کو مزید سہل اور آسان بنایا جائے گا جبکہ اس تمام عمل میں ملک کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے صرف مقامی افراد کو تجارت کی سہولت حاصل ہو گی۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59471564