بلوچ خواتین حادثاتی نھیں بلکہ شعوری بنیادوں پر جد و جهد کا ایک مضبوط حصہ ہیں – گلزادی بلوچ نے جیل سے خط


“میری بلوچ قوم!
امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے، یقیناً آج بھی آپ سب کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سڑک، کسی چوراہے پر حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہوں گے۔ آج بھی بہادر بلوچ مائیں ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں، یقیناً آج بھی آپ سب وہی نعرے سڑکوں پر بلند کر رہے ہوں گے جو کل میں مظالم کی گونج میں للکار رہی تھی۔
جس وقت مجھے جبری گمشدہ کرنے دوسری مرتبہ منہ چھپائے ریاستی اہلکار گھر میں داخل ہوئے تو وہ پاگل کتوں اور درندوں کی طرح ہر طرف منہ مار رہے تھے، گالیاں دیتے ہوئے مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔
جب میں ان کے سامنے گئی تو مجھ پر ان کا خون کھول رہا تھا، ان کا بس چلتا تو میری آنکھیں نوچ لیتے، میری جان لے لیتے۔ ان کے لرزتے ہاتھ دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ بندوق تھامے دشمن ہمارے پرامن تحریک کے آگے دم توڑ چکی ہے۔ گھسیٹتے ہوئے جب وہ مجھے گاڑی میں پھینکنے لگے تو پیچھے سے کسی نے تین مرتبہ بندوق کا بٹ مجھے دے مارا اور گالیاں دیتے ہوئے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔
کسی فاصلے تک چلنے کے بعد گاڑی کئی رک گئی، دو اہلکاروں نے پیچھے سے میرے ہاتھ باندھتے ہوئے کسی کمرے میں لے گئے جہاں مجھ پر ایک ساتھ کئی افراد اپنے نفرت انگیز جملوں سے حملہ آور ہوئے، ان تمام کی باتیں سنتے ہوئے میرے ہاتھ بندھے ہوئے اوپر کو اٹھے ہوئے، پاؤں پھیلائے ہوئے تھے، ہاتھ تھوڑا سا ہلنے پر اچانک میرے پیٹ پر کسی کا مکا پڑتا، پاؤں ہلنے پر پاس کھڑا ایک شخص میرے پاؤں پر لات مار کر مجھے گرا دیتا۔ تمام وقت مجھے سر جھکائے رہنا تھا اگر سر تھوڑا بھی اوپر کی طرف ہلتا تو کوئی اہلکار میرے منہ پر مکا مارتا۔
کافی دیر بعد شاید گھنٹے گزرنے کے بعد اچانک کسی نے مجھے آواز دی کہ بیٹھ جاؤ، جب بیٹھی تو وہاں بیٹھے کسی نے من گھڑت الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ یہ تسلیم کرو، نفی کی صورت میں پھر سے کسی شخص نے میرے سر کو پکڑ کر اتنے زور دے دبایا کہ میرا سر میرے پاؤں سے جا لگا اور اچانک کسی دوسرے شخص نے میرے پیٹھ پر زور سے دو مرتبہ کچھ دے مارا جس سے جسم پر ایک شدید درد اٹھا، یہ عمل دو مرتبہ دوہرایا گیا۔
نامعلوم مقام پر زیر حراست ٹارچر سیل میں مجھے مختلف قسم کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ ہم تمہارے پورے خاندان کو گمشدہ کریں گے، تمہارے بھائی کو گمشدہ کیا جائے
twitter
Youtube
Facebook