تحریر:- جیڈ بابن (سابقہ امریکی انڈر سیکرٹری دفاع)
کوئی ایک ماہ پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنے نیشنل سیکورٹی ٹیم سے ملاقات ہوئی نیشنل سیکورٹی ٹیم جس جس میں سیکرٹری دفاع جیمز میٹس، سیکرٹری سٹیٹ ریکس ٹیلرسن اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر شامل ہیں نے اپنی مجوزہ افغانستان پالیسی نظر ثانی کیلیے صدر ٹرمپ کے سامنے رکھا جسے صدر نے سختی سے مسترد کر دیا جس میں پچھلے سولہ سال سے اختیار کی گئی پالیسی کو جاری رکھنے کا کہا گیا تھا۔
جمعہ کے روز صدر کی دوبارہ اس ٹیم کے ساتھ میٹنگ ہوئی جس میں اس دفعہ نائب صدر مائیک پینس بھی موجود تھے صدر ٹرمپ نے اس دفعہ کسی معاہدے کے قریب پہنچنے کی اشارہ دی تاہم معاہدے کیا ہے اس بارے بات نہیں کی .
اسی دوران جب یہ اجلاس منعقد ہورہے تھے دوسری طرف بلیک واٹر نامی تنظیم جس نے عراق میں وسیع پیمانے پر خدمات انجام دیں تھی کے سابق سربراہ ایرک پرنس دوسرا پلان ترتیب دے رہے تھے پلان کے مطابق امریکی فورسز کے متبادل کے طور پانچ ہزار کی منظم فورس جو کام عراق میں کام کرتی رہی اسی طرح یہ متبادل فورس جسکو ایک سو پرائیویٹ ایرکرافٹ کے دستے کی بھی مدد حاصل ہوگی اور اسکی قیادت ایک خودمختار واہسراہے کیطرح اپنے فورس کو طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کریگی اسی سے ایک ملتا جلتا منصوبہ ایک انویسٹر سٹیفن فنبرگ نے بھی انتظامیہ کو پیش کی ہے
افغانستان پاکستان کے علاقائی زریعے کے مطابق بالکل اسی طرح کا تیسرا منصوبہ افغان شاہی خاندان کے پرنس علی سراج کی جانب سے پیش کی گئی ہے جو 1979 سوویت حملے کے بعد افغانستان سے چلے گئے تھے
میرے زرائع کے مطابق بھی سراج انتہائی تندہی سے اپنے نیشنل سیکورٹی ٹیم کے لیے صدر ٹرمپ یا دوسرے کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار سے بالمشافہ ملاقات کی کوشش میں ہیں. سراج افغان قبائلی جنگجوؤں پر مشتمل فورس تیار کرنا چاہتے ہیں جو افغان فورس سے زیادہ اچھی نہیں ہوگی یا یہ کہا جائے کہ بہتر سے کم درجہ کی ہوگی.
پرنس منصوبہ حکومتی سطح پر حقارت سے رد کی گئی. افغانستان کمانڈر جنرل جان نکولسن نے پرنس سے ملنے سے بھی انکار کردیا. جنرل نکولسن نے افغانستان میں سیکورٹی مضبوط کرنے کے لیے پانچ ہزار مزید فوجیوں کی ڈیمانڈ کی تھی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور کے سابقہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور موجودہ واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ منسلک سٹیفن ہیڈلے نے اپنے ایک اداریے میں کہا کہ ہم افغانستان سے فورسز کا انخلا نہیں کر سکتے. پوائنٹ یہ تھی کہ ہمیں طالبان کو دکھانا چاہیے کہ انھیں راضی کرنے کے لیے ہم مرکزی حکومت کو گرا نہیں سکتے ہوسکتا ہے طالبان اس بات کو نہ مانیں مگر امریکہ کوشش ترجیحا”افغانستان کا حصہ ہے ہمارے مقاصد کو غلط بیان کرنا نا ممکن ہے.
2001 سے ہم افغانستان کے استحکام کے لیے لڑ رہے ہیں نہ کہ شکست کھانے کے لیے. طالبان تقریباً افغانستان کے دسویں حصہ پر قابض ہیں دوسرے حصوں پر اور اتحادی افواج موجود ہیں طالبان امریکہ اور اس کے اتحادی افواج پر حملوں میں شدت پچھلے سال سے آہی ہے اشرف غنی کے دور صدارت میں اسکے پیشرو کرزہی سے زیادہ کرپشن ہے کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش بھی افغان فورسز کو منظم کرنے کی طرح ناکامی کا شکار ہے
داعش افغانستان میں کثرت سے موجود ہے امریکی اہیر فورس نے ماہ اپریل میں افغانستان کے غاروں میں قائم داعش کے کیمپ کو مادر آف آل بمز کے زریعے نشانہ بنا کر کافی نقصان پہنچایا ہمیں افغانستان میں بہت سے ایسے مسائل کا سامنا ہے جیسے کہ پہلی افغان جنگ کے دوران برطانیہ کو1842 افغانستان سے انخلا کے وقت درپیش تھے .افغان جیسے سماج قبائلی رہتے ہیں اپنے پروردہ حکومت کو کمک کرنے کے 1979 میں سوویت قبضے سے 1989 کے انخلا تک سوویت نے یہ سبق سیکھا کہ وہ مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے امریکہ کی جانب سے عسکری اور معاشی کمک کی وجہ سے مجاہدین سوویت طیاروں کو نشانہ بنانے کے قابل ہو سکے تھے. مجاہدین کو بھی طالبان کی طرح پاکستان میں ان کے ہم مذہب لوگوں پشت پناہی حاصل رہی.
پاکستان گو کہ ہمارا اتحادی ہے لیکن ہردفعہ ہمیں ناکام کرنے کی کوشش بھی کی. اسامہ بن لادن کو جب تک خود سی آئی اے کے سیل ٹیم نے ڈھونڈ کر نشانہ نہیں بنایا اس وقت تک وہ پاکستان اسے ایبٹ آباد میں چپھاہے رکھا مشن کے خاتمے تک پاکستان سے بات چھپاہے رکھی گئی
پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے طالبان کو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دی بلکہ دہشت گرد تنظیموں جیسے کہ لشکر طیبہ جو 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہے اور جماعت الدعوہ کو محفوظ پناہ گاہیں دی جبکہ یہ دونوں تنظیمیں امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دی گئی ہیں
افغانستان /پاکستان کے ایک علاقائی زریعے نے مجھے بتایا کہ کہ آہی ایس آئی افغانستان میں کیا کررہی ہے انھوں نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں شہر سے باہر پہاڑی علاقہ کوہء سبز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں سعودی فنڈڈ ایک پاکستانی پروکسی کے خفیہ قیام گاہیں ہیں
ایک اور زریعے کے مطابق دوسری مثال آہی ایس آئی کے اہم اثاثہ منیر ملازہی کی مثال ہےجو افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں وہ افغانستان اور پاکستان کے تین مختلف مقامات پر رہائش رکھتے ہیں ایک رہائش گاہ کوہٹہ میں ہے جہاں سے طالبان کا بدنام زمانہ کوہٹہ شوریٰ سالوں سے اپریٹ کرتی رہی ہے
میرے زرائع کے مطابق منیر ملازہی آہی ایس آئی کے خاص آدمی اور ان کے ساتھ ہمیشہ ایک مسلح شخص موجود ہوتا ہے وہ ایک مزہبی پرچہ جرار کو بھی شائع کرکے پاکستان اور افغانستان میں تقسیم کرتے ہیں جبکہ منیر ملازہی کے ایک خاص بندہ سیف اللہ جماعت الدعوہ کے میڈیا سیل افغانستان میں چلاتے ہیں .
آخر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر اور ضروری ہے کہ پاکستان سلفی جہادی نظریات کے لیے کام کر رہی ہے جو ہمیں اس نقطہ پر لاتا ہے جس کی کہ یہ کالم پڑھنے والے توقع رکھتے ہیں
دو وجوہات ہیں کہ ہم طالبان کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ایک یہ کہ ہم نے ان کے نظریے کو شکست نہیں دی دوسری یہ کہ ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک ہمارے دشمنوں لشکر طیبہ، جماعت الدعوہ، القاعدہ اور دوسرے تنظیموں کی مدد کررہی ہے اور ہمارا اتحادی ہونے کا دعویٰ بھی۔
صدر امریکہ جو بھی فیصلہ کریں اگر وہ اسلامی نظریے سے متعلق ناکام رہتے ہیں ہم جنگ ہار جائیں گے اگر وہ پاکستان بارے فیصلہ کن قدم اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں تو ہم دہشتگردوں کے نیٹ ورک اور ان کے کمک کاروں کو شکست نہیں دے سکتے
میک ماسٹر صدر امریکہ کے ایسا کرنے کے وعدوں کے باوجود کبھی بھی اس طرح کے نظریاتی جنگ اور اسلام مخالف تنازعہ میں پڑنے کی اجازت نہیں دیں گے انھوں نے ہمیشہ دہشت گردی کو غیر اسلامی کہنے پر اصرار کی ہے ہم اس مسئلے چاہے وہ پاکستان ہو یا اسلامی نظریہ سے ڈیل نہیں کر سکتے جب تک کہ میک ماسٹر صدر ٹرمپ کے ٹیم میں شامل ہیں
ہمارے زمینی اور فضائی افواج نے طالبان کو شکست دینے کے علاوہ وہ تمام کام کیے جن کیلئے ان کو کہا گیا اب وقت ہے کہ ایک مقامی فورس کو متبادل کے طور استعمال کیا جائے چاہے وہ امریکہ /نیٹو ہو یا کوئی دوسرا اس کا واحد مقصد افغانستان میں امریکی غرض کا دفاع ہونا چاہیے
اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ایک کرائے کی فوج وہی کام کر سکے جو امریکہ اور نیٹو کرسکتی ہے لیکن جو کام ایک مقامی فورس کرسکتی ہے ایک نیٹو یا امریکی قیادت میں وہ ایک منافع خور واہسراہے نہیں کرسکتی. دہشت گردوں کی امریکہ کو نشانہ بنانے کی خواہش اور افغانستان کو دہشت گردوں کے لیے 9/11سے پہلے والی محفوظ جنت بننے سے بچایا جانا چاہیے
جب تک ہم سلفی اسلامی نظریہ کو شکست نہیں دیتے افغانستان میں جنگ جاری رہے گی افغانستان 9/11 سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائے گی
اگر صدر امریکہ ان آپشنز پرجاتے ہیں. یعنی انخلا ،دہشت گردوں کو دبانے کے لیے مقامی و امریکی فورس، یا کراہے کی فوج بنانے کی منصوبہ. وہ اپنی صدارتی مدت کو جاری رکھنے کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے تو ہم لامحدود رقم اور اپنی قیمتی جانیں اپنے قومی وجود کے لیے اسی طرح قربان کرتے رہیں گے