آج بلوچ قوم میں جو بیداری دیکھ رہا ہوں یہی میرا حاصل وصول ہے: نواب خیر بخش مری


KB-Message to Baluch

nawab-khair-bakhsh-marri-with nargis balochنواب خیر بخش مری – 10 جون 2014 بیران بیت

بلوچ قوم میں آج بیداری پہلے سے زیادہ ہے، پھر بلوچ قومی جہدوجہد بہت تیزی سے آگے جا رہی ہے۔ اب بلوچستان سے نکل کر یہ سلسلہ بیرون ملک بھی پھیلتا جارہا ہے۔ یوسف عزیز مگسی کے دور میں بھی قومی جہدوجہد بیداری کے حوالے سے کافی کام ہوا۔ پھر یہ کام ہر دور میں کسی نہ کسی حوالے جاری رہا۔ آج ہزاروں لاکھوں بلوچ، بلوچستان کی قومی تحریک میں جس جوش و جذبے کا اظہار کررہے ہیں، شاید ماضی میں ایسا نہیں تھا کہ کچھ سامنے ہیں، کچھ انڈر گراؤنڈ ہیں، مگر کام ہورہا ہے۔ حالات تو بلوچ کی آزادی کے لئے کبھی موافق نہیں رہے۔ مگر آزادی حاصل کرنے کے لئے حالات، جہدِ مسلسل اور انقلابی نصب العین سے موافق بنائے جاتے ہیں۔


 

آج بلوچ قوم میں جو بیداری دیکھ رہا ہوں یہی میرا حاصل وصول ہے: نواب خیر بخش مری

nawab-khair-bakhsh-marri-with nargis baloch
انٹریو : نرگس بلوچ
زریعہ : روزنامہ انتخاب
اشاعت : 3اپریل 2009ءآپ کیا چائتے ہیں؟میں بلوچ قوم اور ملک کی آزادی چاہتا ہوں، ساری انسانیت کی آزادی چاہتا ہوںآپ نے 1956ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ 1956ء 1962ء اور 1970ء کے انتخابات میں کامیاب بھی ہوئے، اب آپ پارلیمانی سیاست کے مخالف ہیں، جبکہ تینوں مرتبہ آپ نے پاکستان سے وفاداری کی سوگند کھائی؟میں مغربی پاکستان کی اسمبلی کا ممبر رہا… ہاں اسے آپ نادانی کہ سکتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست محض ایک دکھاوا نظر آئی، جمہوری کہیں نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو بنگلہ دیش نہ بنتا۔ عمر کے اُس حصے میں شاید اتنا شعور بھی نہیں تھا، جوں جوں سمجھ آتی گئی، محسوس ہوا کہ راستے بالآخر ایک گڑھے میں جاتے ہیں۔ شعور یا بیداری ( کے باعث) قومی رویہ بڑھتا گیا۔ میں پارلیمانی سیاست سے دور ہوتا گیا۔ قبائلی سطح پر بھی مجھے محسوس ہوا کہ پارلیمانی سیاست بلوچ کے حق میں نہیں ہے۔ جب جب میں اسمبلی میں رہا پاکستان کے ساتھ میری گڑ بڑ ساتھ ساتھ چلتی رہی، جلسہ جلوس بھی ہوتا رہا. قبائلی حیثیت سے میں اسمبلی میں پہنچا۔ نادانی کہہ لیں یا شعور نہیں تھا کہ حلف کے نام پر، سوگند اُٹھارہا ہوں۔ پھر جیسے جیسے قدم رکھتے گئے، سمجھتے گئے کہ یہ ہماری راہ نہیں ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ کچھ نمازیں قضا ہونے کے بعد احساس ہوا کہ راہ غلط ہے۔ سو رستہ بدل دیا۔ میں اسمبلیوں میں جتنا عرصہ رہا، لڑتا، جھگڑتا ہی رہا۔ 1958ء سے قبل ہی تیل کی تلاش کے لئے آئی ہوئی کمپنیز کو تیل نکالنے نہ دینے پر حکومت پاکستان سے جھگڑاشروع ہوگیاتھا۔ کیونکہ ہمارا یہ موقف تھا کہ زیر زمین جتنی معدنیات ہیں، یہ بلوچ کی ملکیت ہیں لہذاہم کیوں اسے دوسروں کے ہاتھ فروخت کریں۔

آپ کے خیال میں موجودہ حالات بلوچ جہد کے لیے موافق ہیں؟

بلوچ قوم میں آج بیداری پہلے سے زیادہ ہے، پھر بلوچ قومی جہدوجہد بہت تیزی سے آگے جا رہی ہے۔ اب بلوچستان سے نکل کر یہ سلسلہ بیرون ملک بھی پھیلتا جارہا ہے۔ یوسف عزیز مگسی کے دور میں بھی قومی جہدوجہد بیداری کے حوالے سے کافی کام ہوا۔ پھر یہ کام ہر دور میں کسی نہ کسی حوالے جاری رہا۔ آج ہزاروں لاکھوں بلوچ، بلوچستان کی قومی تحریک میں جس جوش و جذبے کا اظہار کررہے ہیں، شاید ماضی میں ایسا نہیں تھا کہ کچھ سامنے ہیں، کچھ انڈر گراؤنڈ ہیں، مگر کام ہورہا ہے۔ حالات تو بلوچ کی آزادی کے لئے کبھی موافق نہیں رہے۔ مگر آزادی حاصل کرنے کے لئے حالات، جہدِ مسلسل اور انقلابی نصب العین سے موافق بنائے جاتے ہیں۔

آپ کے خیال میں بلوچ پارٹیوں اور شخصیات کی کمزوریاں کیا ہیں؟

ڈر، خوف اور نادانی ایسی چیزیں ہیں، جنہوں نے بلوچ سیاست کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، لالچ اور ذاتی مفاد اس کے علاوہ ہیں، شخصیات نیشنلزم کی فکر سے متصادم ہیں اور قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ بعض سیاسی جماعتیں، ذاتی و گروہی مفادات اور باہمی رنجشوں کا شکار ہیں۔

بلوچ قومی تحریک عالمی حمایت کے بغیر جاری ہے، اس پہلو پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟

میں نہیں سمجھتا کہ بلوچ قومی تحریک کو بین الاقوامی ضمانت یا حمایت کی کوئی خاص ضرورت ہے، اس کے بغیر بھی قومی تحریک آگے بڑھے گھی۔ دیکھئے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی سکھانے والا آئے گا، تو ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں ہزاروں آزادی پسند قوتیں آئی ہیں اور کیا کیا انقلاب لائی ہیں۔ تاریخ کے اوراق اس سے بھرے پھڑے ہیں… قومی انقلاب، طبقاتی انقلاب! ہم بین الاقوامی حمایت کی ضرورت کیوں محسوس کریں۔ ہاں، دیکھنا ہے تو بین الاقوامی سطح پر دنیا کے لوگوں کو دیکھیں، پڑھیں۔ پرکھیں، سب کچھ خود بہ خود واضح ہوجائے گا… میں خود بھی جیسے جیسے دیکھتا گیا، سمجھتا گیا۔ حالات میرے سامنے کھلی کتاب بن گئے۔ آج بہت سے بلوچ کہتے ہیں کہ انہیں کوئی سکھانے والانہیں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب آئے، کسی نے ان قوموں کو انگلی پکڑ کر کچھ نہیں سکھایا… آزادی پسند قوتیں جذبے سے بنتی ہیں سیکھنے سکھانے سے نہیں۔

جہاں تک بات بلوچ قومی تحریک کیِ، عالمی حمایت، کی ہے تو میرا خیال ہے کہ جب تحریک زور پکڑتی ہے تووہ عالمی سطح پر خود بہ خود سامنے آجاتی ہے۔ ہم کسی عالمی حمایت کی طرف مدد طلب نظروں سے کیوں دیکھیں… پھر آج میڈیا کا دور ہے، جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔

آج بلوچ کی قومی تحریک صرف بلوچستان یا کراچی میں زور نہیں پکڑ رہی ہے بلکہ یورپ میں بھی، خلیجی ممالک، فرانس، برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی جگہ جگہ بلوچ آزادی کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔ اب یہ بات بہت آگے نکل چکی ہے۔

آپ کے نزدیک اس وقت کون سی جماعت یا تنظیم کی سیاست درست سمت میں جا رہی ہے؟

میرے خیال میں بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف)، بلوچ خواتین پینل اور بھی بہت سے مرد و خواتین ہیں جو انڈر گراؤنڈکام کررہے ہیں۔ جن کی جہدوجہد قومی آزادی کے لئے مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ بعض پارٹیاں جو نیشنلسٹ ہونے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا وژن نیشنلزم کی سمت درست نہیں ہے۔

آپ نے اَسی برس کی عمر میں جو کھویا وہ بتائیں، کیا پایا وہ بھی بتائیں؟

میں تو پیدا ہی کھویا ہوا تھا۔ پہلے انگریز کی رعیت میں تھے۔ آج کل امریکہ اور پنجابی و فارسی گجر ہمارے گرد گھیراؤ تنگ کیے ہوئے ہیں۔ہاں، آج بلوچ قوم میں جو بیداری دیکھ رہا ہوں، یہی میرا حاصل حصول ہے۔

آپ کو جواں سال صاحبزادے میربالاچ کا صدمہ سہنا پڑا… اس کی تفصیلات بتانا پسند کریں گے؟

مجھے اب تک درست تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔ جو معلوم ہیں، وہ میں بعض وجوہات کی باعث زبان پرلانا مناسب نہیں سمجھتا۔ ہاں میں نے بھی اخبارات سے پڑھا اور دیگر ذرائع سے سنا تھا کہ نیٹو فورسز کے قافلے پر شبہات تھے یا کوہلو، یاسر لٹھ میں حملہ ہواتھا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ بالاچ کا نام ہروقت ان کو کھٹکتا تھا، اس لئے اسے راستے سے ہٹایا گیا۔

نواب خیر بخش مری اپنے قبیلے کے ہزاروں افراد کے ساتھ افغانستان گئے اور پھر پاکستانی فوج کے طیارے میں واپس آگئے، اس کی تفصیلات بتانا پسند کریں گے؟

میرے افغانستان جانے کے بعد بلوچوں کی بڑی تعداد میرے پاس آئی۔ وہ میڑھ لی کر آئے کہ میں واپس بلوچستان چلو۔ پھر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ تاج محمد جمالی بھی آئے۔ انکے ہمراہ میرا بیٹا بھی تھا۔ جمالی، رئیسانی، قبائل کے علاوہ پٹھانوں کے نمائندے بھی تھی جو بضدتھے اور مجھے قبیلے سمیت واپس لے جانا چاہتے تھے۔ میں واپس نہیں آنا چاہتا تھا۔ میرے ساتھ مری بلوچ اور کچھ دیگر قبائل کے بھی لوگ تھے۔ میں چاہتا تھا کہ ان سب کے ساتھ رہ کر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کروں۔ میں نے کبھی کسی کی مدد نہیں لی۔ میں افغانستان حکومت کے پاس گیا کہ آپ ہمیں رہنے کی اجازت دے دیں۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ ہم انہیں انکار نہیں کرسکتے۔ میں نے اپنے لوگوں کو چوڑ کر کہیں اور جانا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں مجبورا واپس آنا پڑا… جہاں تک سی ون تھرٹی جہاز میں آنے کا سوال ہے تو میں نے ایسی کوئی فرمائش نہیں کی تھی۔ جہاز میں وہ خود سوار ہو کر آئے تھے۔ میرے لیے کوئی گھوڑا بھی لاتے تو میں اس میں بھی بیٹھ کر چلا آتا۔

اُن دنوں افغانستان میں ایسی حکومت تھی جس سے ہمارے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا، اور پھر بلوچستان میں لوگ ہمارے لئے لوگ فکر مند تھے جلسے اور جلوس بھی کر رہے تھے۔ افغانستان میں جب اس وقت کی قومی حکومت کا تختہ پاکستان کی مدد سے مجاہدین کے ذریعے بدلنے لگا تو بلوچستان میں ہمارے مزاحمتی بلوچوں کے بارے میں تشویش شدت اختیا ر کر گئی۔ جگہ جگہ احتجاج اور جلسے جلوس ہورہے تھے۔ اس تشویش کے نتیجے میں حکومت میں شامل اور دیگر بلوچ ہمارے پاس کابل میڑھ لیکر آئے کہ ہم واپس بلوچستان چلیں۔ دگرگوں حالات کی وجہ سے مجبورا ہمیں بھی واپسی کی حامی بھرنا پھڑی۔ پاکستان سے جو لوگ جس جہاز میں آئے تھے ہمیں بھی اسی جہاز میں ساتھ بلوچستان لائے۔ ہم نے کوئی سی ون تھرٹی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ وہ لوگ تانگہ گھوڑا لاتے تب بھی ہم ان کے ساتھ ہوتے۔ ہمارا واپس آنا غلطی یا مجبوری ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے واپس آنے کو سی ون تھرٹی سے جوڑنا کچھ عجیب لگتا ہے۔

بلوچ قومی تحریک میں آپ خواتین کے کردار کو کس انداز سے دیکھتے ہیں؟ مستقبل میں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بلوچ خواتین کو اپنا کردار اس تحریک میں کس انداز میں نبھانا ہوگا؟

مجھے خواتین کی تحریک میں شامل ہونے کی بات ذاتی طور پر سمجھ میں نہیں آتی۔ تحریک میں شامل ہونے کے بعد لازم ہے کہ دوسرے مراحل بھی درپیش ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی قومی تحریک میں خواتیں کی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ خواتین قوم کا باقاعدہ حصہ ہیں، ان کا کردار بہت اہم ہے۔ آج بھی بلوچ خواتین کا بلوچ قومی آجوئی کی جہد میں بہت بڑا کردار ہے جو کہ قابل ستائش ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ یقیناً فعال اور مضبوط ہو گا ۔

بلوچستان کی وسائل لوٹنے کی بات کرتے ہیں… اس کا الزام بھی دوسرو ں پر عائد کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے چند نامور قبائل کی ملکیت جو معدنی دولت مثلا سنگ مرمر کی مختلف اقسام، کرومائیٹ اور گرینائیٹ و دیگر معدنیات، انہیں روزانہ ہزاروں ٹن ٹرکوں کے زریعے کراچی پہنچایا جارہا ہے۔ یہ سب کاروبار بلوچوں کی اپنی نگرانی اور رضامندی سے ہورہا ہے۔ یہ دوہرا معیار نہیں ہے؟

 

ہاں، اس میں دولت مد نظر ہے۔ ان قبائل کے سربراؤں اور کاروبار کرنے والے بلوچوں کو خاصی بڑی آمدنی ہو رہی ہے جبکہ وہ سستے داموں اپنے وسائل نیلام کررہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ جو نمایاں شخصیات عوام الناس کے سامنے جذباتی تقاریر کرتی ہیں، سائل و وسائل کی بات کرتی ہیں، وہ خود اس کاروبار میں ملوث ہیں، اپنے وسائل نکال نکال کر قیمتی پہاڑوں کو کاٹ کر جس تیزی کے ساتھ کراچی اور پھر کراچی کا سیٹھ دوسرے ممالک پہنچارہا ہے، وہ بے دردی میں دیکھ رہا ہوں اور اس میں بہت تیزی اس وجہ سے بھی آگئی ہے کہ جو لوگ ایک طرف تو (پارلیمانی) سیاست کررہے ہیں دوسری طرف قومی تحریک کے حوالے سے جزباتی تقاریر بھی کررہے ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب بلوچوں میں بیداری آگئی ہے، اس لئے اس سے پہلے کہ وہ ہمارا راستہ روکیں، ہم جتنا مال منتقل کرسکتے ہیں کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی، کوئٹہ آرسی ڑی سی شاہراہ پر ماربل، گرینائیٹ سے لدے ٹرکوں کی قطاریں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ اور جیسا کہ آپ نے بھی کہا کہ ان سب کی ملکیت بلوچ قبائلی سر براؤں کے پاس ہے یا دیگر بلوچ اس کے مالک ہیں، ان کی اجازت کے بغیر کوئی ہمارے وسائل کو کم از کم اس انداز سے نہیں لے جاسکتا۔ یہ لوٹ کسھوٹ تو ہم خود کر رہے ہیں۔

مجھے تو افسوس ہے کہ وہ لوگ جو (پارلیمانی) سیاست بھی کررہے ہیں، قومی تحریک، حق ملکیت اور آزادی کی بات بھی کررہے ہیں، پھر اپنے وسائل خود اپنے ہاتھوں سے پنجابی کے حوالے بھی کر رہے ہیں، یہ کھلی منافقت ہے۔ یہ بیک وقت دو راہوں پر چلنے والے سوداگر ہیں۔ ایسے لوگوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ بلکہ یہ قومی فریضہ ہے… میرے حوالے سے اگر بات میڈیا میں جائے گی تو کہا جائے گا کہ خیر بخش مری ہماری دشمنی یہ باتیں کررہا ہے۔ جبکہ اب یہ بات صرف میری نہیں، ہر باشعور بلوچ کی زبان پر ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہ چکا ہوں کہہ بیداری آچکی ہے۔ وہ جھوٹ، منافقت اور سچائی کے فرق کو واضح طور پر سیکھ اور محسوس کر رہے ہیں۔

مجھے اب جماعتوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو ایک طرف تو آئے دن گوادر میں، کراچی میں،کوئٹہ میں۔ جلسے ، میٹنگیں، پریس کانفرنس کررہے ہوتے ہیں، اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ پنجاب کی بالادستی نہیں مانتے یا یہ کہ بلوچستان کی ساحل پر غیر مقامیوں کو آباد ہونے نہیں دیں گے، یا پھر یہ کہ مادرِ وطن کے وسائل کو کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تواس کی آنکھیں نکال دیں گے… تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعت کے قائدیں وہ سارے عمل کر رہے ہوتے ہیں جن کے خلاف نعرے بازی و بیان بازی کے لئے یہ گماشتے اپنا کام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسی پیڑ کو کاٹ رہے ہیں جس پر ان کا ٹھکانہ ہے۔ یہ جماعتیں کیا کھیل, کھیل رہے ہیں، یہ کیا بات ہے کہ وسائل کو بیچھ بھی رہے ہیں اور یہ وسائل کو محفوط رکھنے کی بات بھی کرتے ہیں، انہیں ایک راہ اپنانی ہوگی۔ یہ ان کے ذاتی فوائد ہیں، جو وسائل کو بیچھ کر حاصل کر رہے۔ قوم کو مجموئی طور پر اس کا کو ئی فائدہ نہیں ہے۔ ہاں،چند چھوٹے سرمایہ دار، صنعتکار بنتے جارہے ہیں، بس بلوچوں کو بے وقوف سمجھ کر اپنا کام کررہے ہیں۔ یہ کوئی بلوچ قومی نظریہ نہیں ہے… آزادی… آزادی… کاروبارنہیں ہے!

پھر وہ جماعتیں بھی جو بلوچ قومی تحریک کی بات بھی کرتی ہیں اور صوبائی خودمختاری کا نعرہ بھی لگاتی ہیں، پارلیمنٹ کی سیاست بھی کرتی ہیں اور بلوچستان کی مسائل کا حل مذاکرات میں تلاش کرنے کی رائے بھی دیتی ہیں، انہیں سمجھنا ہوگا۔ اب فیصلہ کرلینا چاہئے کہ دو کشتیوں میں سوار رہنے کے بجائے وہ اپنے لیے ایک کشتی منتخب کرلیں۔

بلوچستان کی آزادی سے کم کسی چیز پر بات کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔ کم از کم میری ناقص رائے تو یہی ہے… کہتے ہیں کہ بلوچستان کی آزادی کی بات کرنا پاکستان توڑنے مترادف ہے۔ پاکستان ہے کہاں؟ پاکستان تو اُسی وقت ٹوٹ چکا تھا جب بنگلہ دیش بنا تھا، لہذا بلوچستان کو آزاد ریاست بنانے کی کوششیں، پاکستان توڑنا، نہیں۔ ہم پنجاب کو نہیں توڑ رہے ہیں۔ جو لوگ صوبائی خودمختاری کی بات کررہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی دکانداری اسی سے چل رہی ہے۔ ایسے لوگوں سے میری گزارش کی کہ وہ بلوچستان کے وسائل کو بیچنا چھوڑ دیں۔ وہ سیاست کی آڑ میں بلوچوں کے وسائل کو بیچتے جا رہے ہیں۔ تمام معدنیات لوٹی جارہی ہیں۔ پٹرول اگر ان کے بس میں ہوتا، وہ بھی دشمن کودے دیتے۔ سیندک کو بھی لوٹا جارہا ہے… یہ وہ لوگ جو اخباری بیانات اور جلسہ جلوسوں کے ذریعے نیشنلزم کے نا م پر سادح لوح بلوچوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

غلامی کے جبر میں بلوچ میڈیا کیا کرسکتا ہے اور کس طرح اپنے کاز کو آگے لے جایاجاسکتا ہے؟

مجھے تو، بلوچ میڈیا، کہیں نظر نہیں آتا۔ کہیں پاکستان، کہیں معتبرین… یہ کاروباری، میڈیا، ہے۔ نام کے بلوچ ہیں، کردار ان کے بلوچوں جیسے نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے، انہیں وقت سکھائے گا، لوگ سکھائیں گے… سوائے چند ایک کے باقی سب کاروباری ہیں۔ سرکار سے انہیں، پیسے مراعات، بہت کچھ ملتا ہے۔ میں انہیں بلوچ میڈیا نہیں سمجھتا۔ ٹھیک ہے کوئی ناراض ہوتا ہے تو ہوتے رہیں۔ میری نظر میں اکثر بلوچ لیڈر اور میڈیا وہی کردار اد ا کررہے ہیں، ان کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہی کہ خان قلات کے دور میں دہلی دربار سے کچھ لوگ آئے، جن کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو ان کے وزیر نے بتایا یہ خبریں دینے والے ہیں۔ اس پر خان نے کہا کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ میراثی ہیں!… ہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ذرائع ابلاغ میں بلوچ نیشنلزم کے حوالے سے اپنا کردار نبا رہے ہیں، میں ان کی قدر کرتا ہوں۔ میڈیا سے وابستہ وہ لوگ جو خود کو، بلوچ میڈیا، کے دائرے میں سمجھتے ہیں۔ یا لانا چاہتے ہیں، انہیں اپنے قول و فعل کا جائزہ لینا ہوگا، اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔

یہاں نواب خیر بخش مری نے افریقی قومی دانشور و رہنماہ کبرال کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ کبرال سے کچھ صحافی و دانشور ملنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم آزاد ہوں گے تو اتنا لکھیں گے، اُتنا لکھیں گے… یہ نہ ہو کہ بلوچ میڈیا و دانشور اس خیال میں رہیں کہ جب ہم آزاد ہوں گے تو قومی تحریک کے حق میں اِتنا لکھیں گے اُتنا لکھیں گے… ہاں، اگر اب سمجھ آگئی ہے، شعور آگیا ہے توآگے آئیں، اپنا کردار ادا کریں۔ غلامی کے جبر کی پرواہ نہ کریں، ادس کی آڑ نہ لیں۔ آخر ہزاروں، لاکھوں بلوچ بھی تو قومی تحریک میں اپنا کردار کسی نہ کسی طرح ادا کررہے ہیں۔ لکھنے والے پڑھنے والے، سب حقائق کو سامنے لائیں۔ کسی پنجابی کے آگے سر نہ جکائیں۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا بہت ایڈوانس ہوچکی ہے، جو کام سالوں میں ہوتا تھا، اب مہینو ں اور دنوں میں ہورہا ہے۔ لوگوں میں بیداری آرہی ہے۔ میڈیا کے ذریعے، قلم کے ذریعے سچ کو سامنے لائیں۔ زیادتیوں کو کھل کر بیان کریں۔ خود بلوچ قوم میں جو منافقت کرنے والے گروہ یا سیاسی جماعتیں ہیں، ان کے بارے میں بھی کھل کر لکھیں۔ جتنا اس کاز کو آگے لے جاسکتے ہیں، لے جائیں۔ قوم کو بتائیں کہ یہاں الیکشن نہیں ہوتے، یہ کنٹرولڈ الیکشن ہیں، یہ غلام اسمبلیاں ہیں۔ یہ باتیں لوگوں کو بتائیں۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ منزل ایک ہے۔ راہیں جدا جداہیں۔ کوئی کہتا ہے آزادی، دوسرا کہتا ہے صوبائی خودمختاری۔ کوئی بندوق کی بات کرتا ہے، کوئی مذاکرات کے زریعے حل چاہتا ہے۔ بلوچستان کی قومی تحریک کے حوالے سے الگ الگ موقف رکھنے والوں کی منزل ایک ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ بلوچ قومی تحریک کی منزل صرف اور صرف آزادی ہے۔ وہاں صوبائی خودمختاری یا کسی سے مذاکرات کا سوال ہی نہیں ہے۔ میڈیا اس فرق کو واضع کرے۔ میڈیا اس منافقت کو سامنے لائے کہ جلسے جلوسوں میں تو بلوچستان کے مسائل و حق حاکمیت کی باتیں کی جاتی ہیں جبکہ پسِ پردہ خود وسائل کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر غیر کے حوالے کیا جاتا ہے۔

آپ اس انٹریوں کے توسط سے بلوچستان کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

میں تو خود بہت غلطیاں کر چکا ہوں۔ مگر جونہی احساس ہوا، شعور آگیا، غلطی کا احساس ہوا ہے، میں نے پارلیمانی سیاست چھوڑدی، آج میں کیا پیغام دے سکتا ہوں، کہیں گے کہ خیر بخش مری ہمیں سبق پڑھا رہا ہے۔ لیکں پھر بھی میں کہوں گا کہ بلوچستان کے عوام کے پاس وقت کم رہ گیا ہے۔ یہی پندرہ بیس سال ہیں۔ بیداری پیدا ہوچکی ہے۔ تحریک زور پکڑ چکی ہے۔ اسی طرح بلوچ دشمن عناصر بھی سرگرمِ عمل ہو چکے ہیں۔ جس تیزی سے بلوچستان میں مداخلت بڑھ رہی ہے، اگر اس سیلاب کو نہ روکا گیا تو پھر اقلیت میں تبدیل ہونے میں کیا دیر لگے گی! گوادر کا رہاہشی مہاجر کہلائے گااور باہر سے آنے والا مالک بن بیٹھے گی۔ اگر دیر کئی گئی تویہ مرض دائمی بن جائے گا۔ غلام پیداہوئے تھے، غلامی ہی میں مرجائیں گے۔

آزادی اور صرف آزادی، اگر اس روٹ پر میچ کھیلو گے تو جیتو گے، ورنہ ملک ہارنا پڑے گا۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ وقت کم رہ گیا ہے، یہ چند جماعتیں بھی جو منافقت کی سیاست کر رہی ہیں، جلسہ جلوس کر رہی ہیں، دادا گیری اور بدمعاشی سے کام لے رہی ہیں، بلوچستان کی مسائل اور وسائل کی بات کررہی ہیں… کس میں سے! جو وسائل ان کے پاس ہیں، ان کا کیا حشر کر رہے ہیں! میں دانشوروں اور لکھاریوں سے کہتا ہوں کہ ایسی شخصیات اور جماعتوں کے حوالے سے کھل کر لکھیں۔ پڑھے لکھے نوجوان آگے آئیں، کالم لکھیں۔صحافی اپنی رپورٹیں بے دھڑک ہوکر لکھیں۔ قوم کو تصویر کے دونوں رکھ دکھائیں۔ میرے ناقص خیال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ موثر اور ٹھوس انداز میں کام کیا جائے۔

پنجابیوں سے کوئی واسطہ نہ رکھیں، ان کے لئے ہر ممکن پریشانیاں پیدا کریں۔ سول نا فرمانی کریں، ہڑتالیں کریں، ان کی ناک میں دم کردیں۔یہاں کوئی پارلیمنٹ نہیں، کوئی جمہوریت نہیں، یہ فوجی کنٹرول سسٹم ہے۔

یہ جہدوجہد کا وقت ہے۔ اسے گنوادیا تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ پنجابی کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ ان کی ملوں کا تیار کردہ کپڑا نہ خریدیں، ان کی تیار کردہ کسی مصنوعات کی طرف نہ دیکھیں۔ وہ دانہِ گندم نہ کھائیں جو پنجاب کی سرزمین پہ اُگاہے۔ ٹریفک کو بند کردیں، جیلوں کو بھر دیں۔ کیا فرق پڑھے گا جب آدھی سے زیادہ آبادی جیلوں میں ہوگی۔ یہ کتنے دن رکھیں گے، کتنوں کو روٹی کھلائیں گے!

پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم بلوچ، ایک قوم ہیں، صوبائی دوستی کو ملک دوستی نہ بنائیں۔ ہماری منزل آزادی ہے۔ منزل کیا ہے… منزل تو انسانی منزل ہے… قومی منزل بھی انڈر گراؤنڈ چل رہی ہے۔ انشا اللہ ضرور کامیاب ہوگی۔ بس یہ کہ وقت کم ہے۔ سب کو جلدی کرنی ہوگی ۔اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ جو ہتھیار نہیں اٹھا سکتا، وہ پنجابی کا بائیکاٹ تو کرسکتا ہے۔ ہا ں، اگر دیر کردی تو بلوچ کے مقدر میں یہی در بدری لکھی ہوگی، کوئی کسی کی گاڑی دھورہا ہوگاتو کوئی مزدوری کر رہا ہوگا، کوئی ہوٹل میں بیرا گیری کررہا ہوگایا کہیں بھیک مانگ رہا ہوگا… بلوچ رہے تو ضرور مگر با اختیار نہیں ہوگا!

nawab-khair-bakhsh-marri-interview

twitter
Youtube
Facebook